جمعہ، 6 مارچ، 2015

کیا حکومت ہوم بیسڈ ورکرز کو ورکرز تسلیم کرتے ہو ئے انہیں ان کا حق دے گی؟

پاکستانی خواتین کی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر  حکومت پاکستان کی جانب امید کی نظریں۔۔۔۔۔



دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی بلا شرکت غیر اجارہ داری نے جہاں تمام انسانی بھلائی کو متاثر کیا ہے وہیں عورتیں بھی اس سے بہت بری طرح متاثر ہو ئی ہیں آج صنعتوں اور کمرشل سیکٹر کی عورتیں دن میں 10سے 12 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی اکثریت کو کم از کم اجرت بھی حاصل نہیں ہے زیادہ تر عورتیں انفارمل سیکٹر یا غیر منظم شعبے میں کام کر رہی ہیں جہاں مزدور کے حقوق کی پامالی ایک معمول ہے اگرچہ عورتوں کی حقیقی اجرتوں میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی بدحالی اور افراط زر میں اضافہ ہے جو اس وقت 25فیصد تک پہنچ چکا ہے اس وقت تقریبا 75فیصد عورتیں زراعت اور متعلقہ شعبوں میں کام کر رہی ہیں دوسری طرف 12.2فیصد صنعتوں ،13.9فیصد خدمات کے شعبوں سے وابستہ صرف 22.9فیصد عورتیں اپنے کام کا معاوضہ حاصل کرپاتی ہیں جس میں سے 43.9فیصد پیس ریٹ پر جبکہ 12.9فیصد کو روزانہ کی بنیاد پر یعنی عارضی مزدور رکھا ہے آج عورتوں کی بڑی تعداد جو کہ تقریبا 2کروڑ سے زائدہے گھریلوں بنیادوں پر کام کر رہی ہیں جن کے کوئی مزدور حقوق نہیں ہے یہ عورتیں چوڑی ساز،قالین بانی ،ظروف سازی ،جفت سازی ،ہینڈی کرافٹس فیکٹریوں اور بوتیکو کے لئے بڑی صنعتوں کے پرزے جو ڑنے اور ٹیوب لائٹس بنانے تک کا کام کرتی ہیں تاہم ان کا معاوضہ جسم وجان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ناکافی ہے مزدور عورتوں کی اکثریت غذائی قلت اور مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ جیسے مسائل کا شکار ہیں ۔


حکومتی اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 55فیصد ہے جس میں 67فیصد مرد اور 42عور تیں خواند ہ ہیں جبکہ سب سے کم شرح بلوچستان میں ہے جوکہ 22فیصد ہے ہماری ناہموار معاشی اور سماجی ترقی کی جانب اشارہ کرتی ہے تاہم حکومت پاکستان کا دعویٰ تھا کہ 2015تک 80فیصد تک شرح خواندگی حاصل کر لے گی لیکن مجموعی پیداوار کا صرف 2فیصد تعلیم پر خرچ کرنے والی حکومت یہ ہدف کیسے حاصل کرے گی اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے بجٹ میں بھی حکومت نے کٹوتی کی ہے ۔اقوام متحدہ نے گو کہ اس ضمن میں بار بار تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی کو باوقار روزگار کی فراہمی کا ذریعہ قرار دیا ہے جو پاکستانی عورت کے لئے اتنا ہی سچ ہے جتنا دنیا کے کسی اور خطے کی عورت کے لئے تاہم امن ومان کا قیام اس مقصد کے حصول کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے سیاسی محاذ پر گوکہ عورتوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں مقامی حکومتوں میں عورتوں کی شمولیت جو کہ اب ایک طویل جدوجہد تھی جس کے بعد خواتین اسمبلیوں میں یکے بعد دیگرے عورتوں کے حقوق سے متعلق بل پیش کر رہی ہیں ان بل میں گھریلو تشدد اور ہوم بیسڈ ورکر کے حقوق کے بل پیش کئے جا چکے ہیں تاہم انہیں ابھی تک منظو ر نہیں کیا گیا ہے جبکہ کام کی جگہ پر جنسی تشدد کے خاتمے کے لئے کامیاب قانون سازی کی مزدور عورتوں کی تنظیم سازی کے حوالے سے بھی اہم پیش رفت ہو رہی ہے جس میں پبلک سیکٹر کی تنظیموں سے لیکر ہوم بیسڈ عورتوں کی تنظیم کاری تک شامل ہے خواتین چاہے پی آئی اے کی ہوں یا پیرا میڈیکل سٹاف ،اعلیٰ تعلیمی اداروں کے تدریسی اورغیر تدریسی سٹاف ،انجمن مزارعین پنجاب کی عورتوں کی جدوجہد یا پھر اینٹوں کی بھٹیوں پر کام کرنے والی عورتوں کے حقوق کی جنگ ،عورتیں ہر جگہ فعال ہی نظر آتی ہیں ۔تما م ہوم بیسڈ ورکرز عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم ہو اس ضمن میں پاکستان ہوم نیٹ پاکستان سرگرم عمل ہے ہوم نیٹ پاکستان چونکہ ایسے ادارو ں کے نیٹ ورک پر مشتمل ہے جو ہوم بیسڈ ورکرز (اپنے گھروں پر یومیہ اجرت یا پیس ریٹ پر کام کرنے والی خواتین )کے معاشی ،معاشرتیاورکام کے حالات سے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے ۔


پاکستان میں غیر رسمی معاشی سرگرمیوں کے شعبے کا 70فیصد ان خواتین ورکرز پر مشتمل ہے ہوم نیٹ پاکستان 2005سے ان ہوم بیسڈ ورکرز کو بحیثیت ورکرز تسلیم کروانے کے لئے جد وجہد کر رہا ہے کیونکہ ہوم نیٹ پاکستان ہوم بیسڈ ورکرز کو غریب ،نادار پسماندہ اور فلاحی تنظیموں سے ملنے والی امداد کی مستحق سمجھنے کی بجائے انہیں ہنر مند ورکر کی حیثیت سے دنیا میں جانا جائے اور ان کی پیداواری صلاحیتوں میں بہتری واضافے کے لئے مختلف ہنر حاصل کرنے میں تربیت ،جدید ٹیکنا لوجی سے آگاہی اور ان کا استعمال قرضہ فراہم کرنے والی سکیموں تک براہ راست رسائی کے ساتھ ان کی مصنوعات کی بہتر مارکیٹنگ پر توجہ کی خواہاں ہے جس میں ان ہوم بیسڈ ورکرز کا ملکی اندراج انتہائی ضروری ہے تاکہ انہیں لیبر قوانین میں بحیثیت ورکرز تسلیم کیا جائے اور انہیں معاشی ،معاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہو سکے چاہے وہ خواتین مزدور کے آئینی حقوق ہو یا انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ilo)کے ساتھ دستخط کردہ معاہدے خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کو ملکی اعدادوشمارمیں شامل کرنا ضروری ہے پاکستان نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے جبری مشقت کے خاتمے کے کنونشن 29،انجمن سازی اور منظم ہونے کے حق کے کنونشن 87،اجتماعی سوداکاری ومنظم ہونے کا حق کے کنونشن 98،کم از کم اجرت کے کنونشن 100،سماجی تحفظ کا کم سے کم معیار کے کنونشن 102،خواتین ورکرز کو زچگی کے دوران تحفظ کے کنونشن 103،روزگار کے حوالے سے امتیازی سلوک کی ممانعت کے کنونشن 111،کام کرنے کی کم سے کم عمر کے تعین کے کنونشن 138،بحالی پیشہ وارانہ اور ملازمت برائے معذور افرادکے کنونشن 159،ہوم بیسڈورکرز کے کنونشن 177،بچوں کی مشقت کی بدترین اقسام کے کنونشن 182،ڈومیسٹک ورکرز کے کنونشن 189،دستخط کر رکھے ہیں مگر ابھی تک ان معاہدوں پر عملی اقدامات صرف کا غذوں میں محفوظ ہے جنہیں نافذالعمل کی اشد ضرورت ہے۔


کسی بھی ملک کا آئین ایسے بنیادی اصولوں کا مجموعہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست اپنے شہریوں کے لئے ایک منصفانہ ،مہذب ،پرامن ،اور باوقار معاشرے کے تصورکو پورا کرنے کے لئے انتظامیہ ،عدلیہ اور سیاسی اداروں کے نظم ونسق کا ڈھانچہ متعین کرتی ہے پاکستان کا 1973کا آئین ایک جامع دستاویز ہے جس میں بنیادی حقوق کی ایک طویل فہرست ہے آئین کی280شقیں چونکہ بارہ حصو ں میں موجود ہیں آئین میں 2012تک بیس (20)ترامیم ہو چکی ہے البتہ پاکستان کے آئین میں تمام شہریوں کو یکساں بنیادی حقوق میسر ہے ان حقوق میں فکر وضمیر اور مذہب کی آزادی ،اظہاررائے کی آزادی ،نقل و حرکت کی آزادی ،اجتماع کی آزادی اور انجمن سازی کی آزادی شامل ہے ۔واضح رہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن (CEDAW)کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1979کو منظورکیا تھا اس کنونشن کا مقصد خواتین کے ساتھ سیاسی ،معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی شعبوں میں امتیازی سلوک روا رکھنے کو روکنا اور صنفی بنیادوں پر ہر طرح کے تشددکا خاتمہ ہے ۔ہوم نیٹ پاکستان روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے ورکرز کے لئے ایک مربوط سوشل سیکیورٹی کا پلان بھی چاہتی ہے کیونکہ ہوم بیسڈ ورکرز کے پاس 5دن سے زائد کا ذخیرہ نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ جاتے ہیں اگر چہ یہ کام صرف صوبائی حکومتوں کاہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ہے اگر وفاقی حکومت ملک میں جامع سوشل سیکیورٹی کا نظام رائج کر ے اور ہوم بیسڈ ورکرز کو تسلیم کرے تو یقیناًمزدوروں کے دیرینہ مسائل حل ہو سکتے ہیں ان ہوم بیسڈ ورکرز کو کام کے مکمل ہونے اور ڈلیوری کرنے پر صرف 40فیصد رقم ملتی ہے جبکہ 47فیصد عورتوں کو کام مکمل ہونے کے باوجود بھی معاوضہ نہیں ملتا ہےلہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے اور ملک میں سوشل سکیورٹی کے نظام کو مضبوط کرے اور تمام صوبوں کو ہدایت کرے کہ وہ اسمبلیوں میں ہوم بیسڈ ورکرز کے بنیادی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ضروری ترجیحات کو فروغ اور ان مزدوروں کی مکمل رجسٹریشن بھی کر ے تاکہ ہوم بیسڈ ورکرز کو باقاعدہ ورکرز یعنی مزدور تسلیم کیا جا سکے ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں