جمعہ، 30 جنوری، 2015

اسلام میں عورت کے حقوق کا تحفظ

نسل انسانی کے ارتقاء اور فروغ کے لئے رب کائنات نے مردوزن کا وجود پیدا کیااور ان دونوں کے وجود کے باہمی ملاپ سے انسانی نسل کا ارتقاء عمل میں آیا۔شادی اس ملاپ کانام ہے جوصدیوں سے انسان مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں اپنی اپنی رسوم کے مطابق کرتے ہیں اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا جبکہ نکاح وہ معاہدہ ہے جس کی رو سے عورت اور مردایجاب وقبول کامل اپنی مرضی اور رضا مندی سے باہمی طور پر طے کرکے اس کا اعلان کرتے ہیں۔چونکہ نکاح کا عمل صدیوں سے رائج ہے اسی لئے اسلام میں عورت کے حقوق کا تحفظ اور نکاح کے موقع پر عورت کو اہمیت دی گئی ہے کہ عورت نکاح میں اپنی مرضی کا ظہار کردے تو نکاح نہیں ہو سکتا ہے ۔



مرد کی جانب سے ایجاب اور عورت کے قبول کرنے کے عمل کو نکاح کہتے ہیں نکاح عورت کے حقوق کوتحفظ دینے اور اسے یقینی بنانے کا نام ہے نکاح نامہ عملی طور ایک مقدس دستاویزات سمجھا جاتا ہے جس کو بوقت نکاح مولوی صاحب کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ اپنی آسانی اور لوگوں کی کم فہمی کے پیش نظر ہمیشہ اسے ادھورا چھوڑ کر اپنا فرض نبھاتا ہے جو کہ سرا سر غلط اور قوانین کے حقوق کے تابع باقاعدہ طور پر نکاح نامہ کے فارم ان کی رجسٹریشن اور ان پر عملدرآمد کے لئے قوانین بھی مرتب کئے گئے ہیں جس میں سر فہرست حق مہر ہے جوکہ ایک بنیادی حق بھی ہے نکاح نامہ قطعا کوئی مقدس دستاویز نہیں ہے مگر نکاح نامہ کی شرائط عائلی قوانین کے طے شدہ ہیں جن میں ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ ایک سماجی معاہدہ ہے اس لئے نکاح نامہ کی مہر شق کو اختیار کے ساتھ تحریر کرنا انتہائی ضروری ہے مگر ہم بوقت نکاح نامہ اس اہم نکتہ فراموش کردیتے ہیں اور بہت سی اہم شقوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں تو تب اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے ایک وقت تھا کہ طلاق ایک متروک لفظ تھا مرد بھی طلاق کا لفظ زبان پر لانے سے ہچکچاتے تھے لیکن خاندانوں کے درمیان مضبوط سماجی روابط اور اخلاقی روایات کے پیش نظر مشکل ترین حالات میں بھی میاں بیوی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے مگر آج تیزی سے روایات ،خاندانوں کی تقسیم درتقسیم مسابقت کی دوڑبیجا آزادی میڈیا کی اثر اندازی اور خصوصا مردوزن کے مطابق باہمی اختلاف توقعات کی بسیاری نے حالات کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے لیکن آج طلاق کی شرح تین طلاق یومیہ سے بڑھ رہی ہے خدشہ ہے کہ پاکستان طلاق کی شرح میں کہیں دیگر ممالک کی طرح آگے بڑھ جائے آج بھی 40%خواتین اپنی تمام ترآزادی اور خودمختاری کے باوجود نکاح کے وقت مشرقی خواتین اپنے نکاح کی شرائط خودطے نہیں کرسکتی ہیں اس ضمن میں آہنگ نے سال 2012میں ایک کمیونٹی لیول پر سروے بھی کیا گیا جس میں پہلے حیدرآباد کے صرف چاروں تعلقہ لطیف آباد ،حیدرآباد سٹی ،قاسم آباد کے ایک ہزار لوگوں سے دریافت بھی کیا گیا جس میں 62%عورتوں نے بتایا کہ انہیں پتہ نہیں کہ طلاق دینے کا حق حاصل ہے یا نہیں ہے 90%لوگوں نے دوسری شادی کے متعلق آگاہی سے محروم ہیں لیکن صرف 8%لڑکیوں نے اظہار نالج کی بات کی جبکہ آج بھی 65%لڑکیوں کی شادی 16برس سے قبل ہی کردی جاتی ہے جس میں ان لڑکیوں سے اجازت تک نہیں مانگی جاتی ہے جو 1961کے مسلم فیملی ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے جبکہ لڑکیوں کی سیصلہ سازی کی قوت اور تعلیم تک رسائی عملی طور پر ممکن نہیں رہتی ہے مذکورہ معاملات پر سیر حاصل بحث کو فروغ دے کر صوبائی اسمبلی کے ممبران فیصلہ ساز شخصیات اور سرکاری افسران نے ضلعی وصوبائی سطح پر(کم عمری کی شادی پرپابندی کے بل 2013)کو سندھ اسمبلی سے پاس کرنے کی راہ ہموار کی اس بل میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کم از کم 18برس تجویز کی گئی ہے پاس ہونے والے بل سے تبدیلی کی امید ہے



 لیکن شادی کے وقت لڑکی کی عمر اٹھارہ برس ہے اس کی مکمل تصدیق ہونی چاہیے کمسنی کی شادیوں میں لڑکیوں کو ان کے حقوق سے محروم اور شرائط کا خانہ خالی رکھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے نکاح نامہ کے پیرا نمبر 16,17,18,اہم شرائط ہیں مگریہ اہم شرائط کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے نظر انداز کردی جاتی ہیں حالانکہ نکاح نامہ میں واضح طور پر جب یہ تحریر ہے کہ کوئی اور شرائط تو اس کے تحت خواتین کا ماہوار جیب خرچ بصورت ناچاقی ان کے خرچہ ونان نقطہ اور بچوں کی پرورش کی بابت حفظ ماتقدم کے طور پر تمام شرائط آپس میں طے کر کے تحریر کی جاسکتی ہیں اس لئے اس اہم پیرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس کے علاوہ بھی جو شرائط قانونی وجائز ہوں وہ اس پیرے میں درج کی جاسکتی ہیں دوسرا اہم پیرا نمبر جس میں عورت کو طلاق کا حق تفویض کیا گیا یانہیں لکھا گیا ہے اس پیرا کی اہمیت اس لئے بھی ہے مردجب عورت کو طلاق دیتا ہے تو چند سیکنڈ میں اپنی زوجیت سے آزاد کردیتا ہے اور کھڑے کھڑے اس کو اپنے گھر سے نکال دیتا ہے یا قانونی طور پر صرف پندرہ روپے کے اسٹامپ پیپر پر طلاق نامہ تحریر کرکے عورت کو تھما کر اسکو آزاد کردیتا ہے مگر جب عورت نا مساعد حالات میں آزادی چاہتی ہے تو اس کو ہزار قسم کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہےعدالتوں میں مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے گواہ پیش کرنے پڑتے ہیں انتہائی فضول قسم کی الزام تراشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے شہادتوں اور بحثوں کے طویل عمل کے بعد ریزہ ریزہ ہو کر کہیں طلاق کی اہل قرار پاتی ہے جس کےلئے اس کو اپنے کئی  حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور مرد کی جانب سے دئے گئے تحائف وغیرہ واپس کرنے پڑتے ہیں جبکہ اس دوران اس کے ساتھ اس کا پورا خاندان کربناک اذیت کا شکار رہتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ عورت کا یہ قانونی اور جائز حق دیا جائے کہ وہ بھی اگر چاہے تو مرد کو طلاق دےسکے عورت چونکہ کم فہم ہوتی ہے اور جذبات میں آکر اس حق کو غلط استعمال کرسکتی ہے لیکن جب خوشی وخرم ازدواجی زندگی گزار رہی ہوتو چند واقعات کو چھوڑ کر کوئی بھی عورت ایسی سوچ کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اپنے خوش وکرم گھر کو مسمار کردے کیونکہ طلاق ہمیشہ ناگزیر صورت میں ہی ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا حق حاصل ہونے کے باوجود وہ یہ حق استعمال میں کوئی تامل نہیں کرتے اس لئے عورت کو طلاق کا حق تفویض کرتے وقت یہ شرائط عائد کی جاسکتی ہے کہ عورت طلاق کاحق صرف اس وقت اتعمال کرسکتی ہے جب اسکے والدین یا والدین کی عدم موجودگی مین بہن بھائیوں میں سے کم از کم دوافراد کی رضا مندی حاصل ہوتاکہ یہ فرد واحد کا جذباتی فیصلہ نہ ہو اس حق کو تفویض کرنے کے بعد پھر عورت بھی اس طرح اپنے حق کو استعمال کر سکتی ہے شادی جو کہ دو افراد کے درمیان ازدواجی بندھن ہونے کے باوجود کچے دھاگے کی مانند ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے اس لئے احتیاطی تدابیر کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے کیونکہ بعض خواتین کو گھریلو اازادی جب ملتی ہے تو وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں جس کی وجہ سے گھریلو خواتین کو بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی ہے جس سے گھریلو لڑکیوں میں سخت مایوسی اور وہ ڈری سہمی ہوئی سی رہتی ہیں ایسی گھریلو خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی ٖضرورت ہے آج شہر کی عورتوں نے کافی مضبوط قدم جما رکھا ہے لیکن دیہاتوں میں رہنے والی خواتین بھی کم نہیں ہیں پچھلے دس برسوں میں خواتین نے گھروں سے باہر قدم رکھا اور آج مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں اور مختلف شعبوں کے اندر ترقی کے زینے طے کر رہی ہیں اگر والدین اپنے بچوں پر اعتماد کریں تو ان کی ہچکچاہٹ ،مایوسی ختم ہو اور وہ بھی دوسروں کی طرح آگے بڑھ سکیں ۔

جمعہ، 9 جنوری، 2015

کیا دس برسوں میں مزدور کی قسمت بدلے گی

پاکستان میں جی ایس پی پلس سکیم اور مزدور۔۔۔۔۔۔!


سرمایہ داروں کی چاندی مگر مزدور کی صحت اور سماجی تحفظ تک رسائی ممکن نہیں ۔۔؟


پاکستان کو جنو ری 2014 میں یورپی یونین کی جانب سے یونین میں شامل ملکوں کو دس برسوں کے لئے بلا ٹیکس ٹیکسٹا ئل و گارمنٹس کی برآمدگی کے لئے جی ایس پی پلس کا درجہ ملے ایک برس بیت گیا اس دوران صنعت کاروں کو اپنی برآمدی مصنوعات میں ڈیوٹی کی چھت ملنے سے خاصا منافع بھی ہوا ہے اور اس ضمن میں حکومت کو زر مبادلہ میں خاصی آمدنی بھی ہوئی لیکن معیشت اور محنت کی مثلث کے تیسرے فریق یعنی مزدور کے حالات پر کوئی واضح اثر نہیں ہوا ہے۔


 دسمبر 2013میں جب یورپی یونین نے پاکستان کے لئے جی ایس پی پلس اسکیم کی منظوری کا اعلان کیا تو حکومت و سرمایہ داروں کی طرف سے جاری بیانات میں کہا گیا کہ یورپی یونین نے پاکستان کو ان 27عالمی کنوینشنز کی پابندی کی مد میں تسلیم کر لیا ہے مگر پاکستان کے محنت کش تاحال مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مزدوروں کو ملازمتوں کا تحفظ و صحت کی بنیادی سہولیات جو سرے سے موجود نہیں ،سماجی تحفظ ،یونین سازی ،اجتماعی سودا کاری کے حقوق کی پامالی ،ٹھیکے داری سسٹم جیسے مسائل نے مزدوروں کی زندگی دوبھر کرکے رکھ دی ہے ۔جس سے سرمایہ دارو ں کی آمدنی میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے ۔یورپی یونین نے پاکستان کو تجارت کی ترجیحی سہولتیں فراہم کرتے وقت برآمدی اشیأ پر چھوٹ دراصل موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی غرض سے دی تاکہ بین الاقوامی معاہدوں و عالمی مزدور قوانین کے تحت انسانی حقوق جن میں مزدور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی صورتحال کو بھی بہتر بنانے کی شرط تھی جس میں یورپی یونین نے آئی ایل او کنونشنز کی نگرانی بذات خود کرنا تھی تاکہ اس پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جاسکے اس ضمن میں پاکستان کو خاصا نقصان ہونے کا بھی اندیشہ ہے اس کے باوجود حکومت اور سرمایہ کار یورپی یونین کی شرط سے غافل دکھائی دیتے ہیں لیکن پاکستان ریاست کو اس معاملے میں پابند کرتا ہے کہ وہ معاشرے کے ان تمام بالغ افراد کو روزگار دے کیونکہ پاکستان انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں میں ناصرف شریک ہے بلکہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن بنیادی اور دیگر کنوینشنز کی توثیق بھی کر چکی ہے لیکن قومی سطح پر قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ صرف بین الاقوامی کنوینشنز بلکہ ملک کے مزدور ضابطوں پر عمل خاصا کمزور دےکھائی دیتا ہے۔ سال 2010میں جب اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت شعبوں کو صوبوں کے اختیار میں دیے جانے کے بعد ملک کے تمام صوبوں نے اپنے طور پر انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ وضع کیا جس کے نتیجے میں کہیں ایک مقامات پر مزدور کو فائدہ ہوا اور کہیں بہت زیادہ نقصان بھی ہوا ہے کیونکہ قومی سطح پر مزدوروں سے متعلق قانونی فریم ورک یعنی فیڈرل لیبر قوانین موجود نہ ہونے کی وجہ سے صوبوں کو اپنی من مانی کا اختیار مل گیا ہے ۔


 وفاقی حکومت کی سطح پر قانونی فریم ورک تیار ہونے چاہئے جس میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے معیارات اور صوبوں کی حدود بھی متعین کی جائے تاکہ صوبے تسلیم شدہ معیارات سے ہٹ کر قانون نہ بنا سکیں البتہ پاکستان کے مزدور گزشتہ67برسوں سے نافذ کی جانے والی چھ پالیسیوں کی قانون سازی سے محروم رہے ہیں اور یہ چھ پالیسیاں کبھی بھی مزدور دوست قوانین کا روپ نہیں دھار سکیں۔سال 2001,1972,1969,1959,اور2010میں نافذکی جانے والی لیبر پالیسی میں ستم یہ کہ محنت کشوں کا یونین سازی کا حق بھی تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔اٹھارویں ترمیم کے چار برس بعد پنجاب نے تینوں فریقوں کی مشاورت کے بغیر لیبر پالیسی 2014 ڈرافٹ تیار کی اگر وفاقی سطح پر فریم ورک ہوتا تو مزدوروں کے حقوق پر کوئی ضرب نہ پڑتی بلکہ صوبوں کو اپنے خطے کے مخصوص حالات اور معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی لیبر پالیسی وضع کرنے میں بھی آسانی ہوتی کیونکہ محنت کے ہر شعبے میں کارکنوں کےلئے محفوظ ماحول اور سلامتی کے اقدامات کا نہ ہونا ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان لیبر حقوق پر عمل درآمد کے حوالے سے پچھلی چھ دہائیوں میں کبھی بہتر حیثیت میں نہیں رہا ہے پاکستان میں غیر رسمی معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس مناسبت سے جی ڈی پی میں اس کی شرح تقریبا %73.8تک جا پہنچی ہے ٹیکسٹائل کو پاکستان کی بر آمدی آمدنی حاصل کرنے والا شعبہ خیال کیا جاتا ہے حد تو یہ کہ ٹیکسٹائل کے شعبے نے 2012-13کے مالی سال میں 18ارب امریکی ڈالر کی برآمدات کیں لیکن اس کے باوجود صنعتیں مزدوروں کو اےک آبرومندانہ اور کم سے کم اجرتیں دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔پاکستان کی کل شہری افرادی قوت کا تقریباً %40ٹیکسٹائل انڈسٹری کے شعبے سے وابستہ ہیں جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے ۔پاکستان نے سال 2012-2013میں 1.3ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں لیکن صنعت سے وابستہ مزدوروں کا پھر بھی کوئی پرسان حال نہیں اسی لئے شہر لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ مقامی لیبر قوانین کے دائرے سے خارج ہوتا جارہا ہے کیونکہ متعدد مزدور کام کے دوران صنعتی حادثات میں زخمی یا پھر موت کا شکار ہوتے ہیں اس بات کا اندازہ 2012میں کراچی کی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں مزدوروں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔اس کے باوجود فیکٹریوں میں حادثات سے بچاؤ،انہیں روکنے یا مرنے اور زخمیوں کی دادرسی کا نظام تک موجود نہیں ہوتا ملک میں موجود قوانین کے تحت محنت کشوں سے متعلق حقوق انتہائی محدود ہیں ان کا اطلاق صرف مزدوروں کی قلیل تعداد پر ہوتا ہے جو منظم شعبے کی بڑی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں ۔بین الاقوامی سطح پر سماجی تحفظ ہر شہری کا بنیادی حق ہے جسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے اور پاکستان کے آئین کی دفعہ 38کے تحت ریاست یہ ذمہ داری سماجی تحفظ کے ادارے قائم کر کے پوری کرنے کی پابند ہے اس ضمن میں قوانین کے تحت کئی ادارے تو قائم ہیں لیکن ان کی کارکردگی محدود ہے اسی لئے ان اداروں کی سہولتوں کا فائدہ صرف %5محنت کشوں کی ہی ملتا ہے اس غیر منظم شعبے میں کام کرنے والے زرعی شعبے کے مزدوربلکہ بھٹہ ،دکانوں ،ٹرانسپورٹ کے مزدور ان سہولتوں سے محروم رہ جاتے ہیں سماجی تحفظ کی سکیموں کی اہمیت کا حکومت کو احساس نہیں اسی لئے وہ ہر سال اس مد میں رقوم کم کر رہی ہے جبکہ سماجی تحفظ کی سکیموں میں غیر منظم شعبے خصوصا زرعی شعبے اور ٹرانسپورٹ کے مزدوروں کو شامل کیا جائے جو ملک میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والے شعبے ہیں جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ سماجی تحفظ کے نظام کو بہتر بناتی بلکہ معیشت کے تمام شعبوں کوسماجی تحفظ کے دائرے میں لاتے ہوئے مزدوروں کو از خو د ان اداروں کو فعال بنانے کے لئے کرپشن سے پاک نظام قائم کرنے کے ساتھ ان کے فنڈز میں بھی خاطر خواہ اضافہ کرے ۔زراعت جو کہ ملک میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے زرعی مزدور لیبر قوانین اور اس کی اہمیت سے ناواقف ہے زرعی مزدور کو اس مناسبت سے صحیح آگاہی میسر نہیں جو اس کا حق ہے جبکہ عوامی سطح پر اس بات کا بار بار اسرار کیا گیا کہ زرعی شعبے سے وابستہ ان تمام مزدوروں کو بھی لیبر قوانین کے تحت حقوق فراہم ہو جو انہیں ملنے چاہئے تھے لیکن سازگار اداروں میں جاگیرداروں کی اکثریت کی وجہ سے زرعی شعبے سے وابستہ مزدوروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے ۔جی ایس پی پلس سکیم کی سہولت کے بعد نا صرف یورپی یونین بلکہ بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی پاکستان سے کپاس برآمد کرنے والوں پر یہ شرط عائد کررکھی ہے کہ وہ کھیت کے مزدوروں کو ان کا جائز حق اداکریں گے اس مد میں حکومت سندھ نے سال 2013میں زراعت کے شعبے کے تمام مزدوروں اور کسانوں کو یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کا حق دیا اب وفاقی حکومت بھی کھیت کے مزدوروں کو صنعتی مزدوروں کے برابر حقوق دینے کے لئے اقدامات بروئے کار لائے اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے لیبر انسپیکشن کنوینشن 129نمبر کی توثیق بھی کرے ۔ پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کنوینشن 100برائے مساوی اجرت اور کنوینشن 111ملازمت اور روزگار میں تفریق کے خاتمے کی توثیق بھی کرچکا ہے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد ان کنوینشنز پر عمل کروانا اب پاکستان کی ذمہ داری ہے کیونکہ پاکستان میں خواتین مزدوروں کی شرح چونکہ کم ہے پھر بھی انہیں اجرت مردوں کے مقابلے میں کم ملتی ہے جبکہ پاکستان کا آئین ہر سطح پر مردوں اور خواتین کو مساوی حقوق کے فراہمی کی ضمانت دیتا ہے پاکستان اس ضمن میں عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے کنوینشن CEDAWپر بھی دستخط کر چکا ہے ۔لہذا جی ایس پی پلس سکیم میں شامل ملکوں کے برآمد کنند گان کو اپنی استعداد میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ پیداواری حجم کو بڑھاےا جائے جس کے لئے خام مال اور انسانی وسائل کے علاوہ انہیں بنیادی ضروریات یعنی بجلی اور گیس کی مسلسل فراہمی کی بھی ضرورت ہے۔ پیداوار کے لئے درکار یہ عوامل برآمدی صنعت کو دستیاب نہیں ہیں البتہ جی ایس پی پلس سکیم پاکستان کی سکڑتی ہوئی معیشت کے پیش نظر دی گئی تاکہ پاکستان میں مزید روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہیں کیونکہ جی ایس پی پلس سکیم ملکوں کو 27بین الاقوامی کنونشنز پر عمل درآمد کا پابند کرتی ہے اس درآمدی سکیم میں اب پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدے کے لئے جلد مذاکرات شروع کرنے جارہا ہے ۔کیونکہ حکومت برآمدات کے ذریعے معیشت کو مضبوط بنانے کے عمل میں سنجیدہ دیکھائی دے رہی ہے لیکن ہنر مند مزدورں کی یوٹیلیٹیز کی بلا تعطل فراہمی اور شہر میں امن امان کی خراب صورتحال کے باعث سنگین قلت ہے اس کے باوجود صوبائی حکومتیں لیبر ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہی ہیں ۔صوبوں کے لیبر محکموں کو اور زیادہ سرگرمی باالخصوص فیکٹریوں میں بنیادی لیبر حقوق پر عمل درآمد کے حوالے سے سخت نگرانی اور کام کی جگہوں پر صحت و تحفظ کے انتظامات کا جائزہ لینے کے عمل کو بھی شروع کر رکھا ہے ۔حکومت پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے 36کنونشنز بشمول آٹھ بنیادی کنونشنز کی بھی توثیق کر چکی ہے جس کے تحت ریاست پر ذمہ داری ہے کہ وہ لیبر قوانین کا نفاذ کرے اور ضروری ادارہ جاتی نظام تشکیل دے تاکہ نگرانی کے موثر طریقہ کا ر کے ذریعے ان حقوق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے 18ویں آئینی ترمیم اور اختیارات کے عدم ارتکاز کے بعد صوبائی لیبر محکموں کے لئے لازمی ہے کہ وہ مقامی لیبر قوانین کو فوری طور پرصوبائی شکل دیں اور قوانین کے اطلاق کے متعلق تقاضوں کو بھی پورا کیا جائے کیونکہ صوبائی محکمہ ٹیکنیکل صلاحیتوں کے فقدان اور محکموں کے اندر وسائل کی کمیابی کے باعث ان میں سے ابھی تک کوئی بھی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے ۔اسی لئے سندھ حکومت نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تعاون سے ایک سہ فریقی مشاورتی عمل کے بعد کام کی جگہ پر تحفظ کے لئے مشترکہ ایکشن پلان تیار کیا ہے جو جوائنٹ ایکشن پلان پاکستان باالخصوص صوبہ سندھ میں کام کی جگہوں پر بین الاقوامی لیبرمعیارات پرعمل درآمد کے لئے رہنما اصول کے طور پر کردار ادا کرے گا ےہ جوائنٹ ایکشن پلان تین اہم موضوعات کا احاطہ کرے گا یعنی کام کی جگہ پر پیشہ ور رانہ تحفظ اور صحت ،لیبر انسپیکشن کا نظام ،مزدوروں کا سماجی تحفظ ،جہاں تک جی ایس پی پلس سے متعلق کنوینشنز پر عملدرآمد کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے سرکاری محکموں پر حکومت پاکستان کی جانب سے کئے گئے وعدوں پر بین الاقوامی معاہدوں کے ضمن میں عمل درآمد کر نے کی زمہ داری عائد ہوتی ہے جی ایس پی پلس پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے اس مقصد کےلئے حکومت سندھ نے ان 15وفاقی لیبر قوانین کو صوبائی شکل دینے کے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے جو صوبے میں جی ایس پی پلس کے کنوینشنز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ضمن میں بہت ضروری ہیں اس میں موجودہ لیبر قوانین مین ترامیم کرنے کا عمل بھی شامل ہے تاکہ انہیں بین الاقوامی لیبر معیارات سے ہم آہنگ کیا جاسکے ۔



سندھ کا محکمہ محنت مذکورہ بالا مسائل اور چیلینجز پر قابو پانے کے لئے مزدوروں اور سول سوسائٹی و مزدوروں کی تنظیموں کی خصوصی معاونت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اسٹاف کی تربیت ،لیبر قوانین اور کام کی جگہ پر تحفظاتی اقدامات کی جانکاری کے کام میں سہولت حاصل ہوسکے ۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی لیبر محکموں میں ترقیاتی فنڈکی رواں منتقلی نہ ہونے کے باعث ان اداروں میں ٹیکنیکل سٹاف سپورٹ کی عدم دستیابی بھی ہے کیونکہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اندر آئی ٹی کی سہولیات کےلئے فنڈز کی کمیائی پائی جاتی ہے جبکہ سرکاری محکموں میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کو سب سے کم زور محکمہ تصور کیا جاتا ہے اسی لئے حکومت بھی اسے بہت کم فنڈز مہیا کرتی ہے ۔جی ایس پی پلس سکیم کے تحت 27کنوینشنز باالخصوص انسانی لیبر حقوق سے متعلق 16کنونشنز پاکستان کے اندر لیبر حقوق کے مجموعی حیثیت پر اپنا مثبت اثر ڈال سکتے ہیں جی ایس پی پلس سکیم کو اگر تعمیر و ترقی کے ایک موقع کے طور پر اختیار کیا جائے تو یہ پاکستان کے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جس کی افا دیت محض براہ راست مالی فوائد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس پردیانت داری سے عمل اور نگرانی کر لی گئی تو یہ سکیم پاکستان میں مزدوروں کے حقوق اور مالیاتی و انسانی حقوق کی حیثیت کو بھی بہتر بنانے کے ضمن میں موثر کردار ادا کرے گی ۔مزید براں جی ایس پی پلس سے متعلق کنوینشنز پر عمل درآمد کے ضمن میں جن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے ان مشکلات سے بخوبی نمٹنے کے لئے حکومت اور سرمایہ کاری کرنے والی تنظیموں کو چاہیئے کہ جی ایس پی پلس کنوینشنز باالخصوص جن کا تعلق ماحولیات سے ہے ان پر سختی سے عمل درآمد کروائیں اور خود بھی کریں ،حکومت لیبر ڈیپارٹمنٹ میں ان فیکٹریوں کے اندراج کو یقینی بنائے جو شہر کے صنعتی ایریامیں کام کررہی ہیں اور مزدور تنظیمیں تمام صنعتی یونٹوں میں مقامی لیبر قوانین پر عمل درآمد بنانے کے ضمن میں اپنا رضاکارانہ کردار ادا کریں حکومت تاجروں کو سہولیات کے ساتھ تحفظ بھی فراہم کرے ،حکومت بنیادی لیبر حقوق اور مقامی لیبر حقوق پر باقاعدہ عملدرآمد کے لئے کمیٹی تشکیل دے اور تجارتی تنظیمیں لیبر حقوق اور بین الاقوامی کنوینشنز پر عمل درآمد سے متعلق آگاہی ورکشاپس کا انعقاد اور ملکی میڈیا مزدوروں کے مسائل کو وقتا فوقتا اجاگر کرے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس حد تک جی ایس پی پلس سکیم پر پاکستان میں عمل کروایا جا رہا ہے ۔