جمعرات، 19 فروری، 2015

شہر قائد کو سمندری خطرات لاحق


دنیاکے ساتویں  بڑے ڈیلٹا پر باد شاہی کرنے والے آج غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار نے پر مجبور 

ماحولیات میں موجود زہریلی ہوائیں جذب کرکے آکسیجن فراہم کرنے والے تمر کے گھنے جنگلات ختم 


لاکھوں انسانوں کی زندگی کی حفاطت کی ضمانت کے طور پر سمندر میں موجود تمر کے جنگلات کو بااثر افراد اور سا حلی وڈیروں پر مشتمل مافیا نے تیزی سے کاٹ کر شہر کراچی اور انسانی زندگیوں کو داؤں پر لگا ر کھا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے ما حولیات اور سمندری حیات نے دنیا بھر کے ممالک پر زوردیا ہے جس پر حکومت پاکستان نے عملدرآمد کروانے کے احکامات بھی جاری کر رکھے ہیں لیکن ساحلی مافیا ان تمام قوانین واحکامات کے برعکس بلا ضرورت ماحولیات کی تباہی کے لئے تمر کے جنگلات کا ٹ رہی ہے بلکہ سمندر میں مٹی کی بھرائی کرکے سمندر کنارے بستیا ں قائم کرنے کے ساتھ ان پر اپنا قبضہ بھی جما رہے ہیں جس پرکراچی کی 129کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ،ماحولیات، ماہی گیر وآبی حیات کے علاوہ کراچی کے لاکھوں لوگ غیر محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں ۔ساحل سمندر اور ماہی گیری صنعت پاکستان میں جہاں معیشت کو مضبوط کرتی ہے وہی ملک کی جغرافیائی اہمیت اور فطری حسن کو بھی دوبالا کرتا ہے ۔

آبی حیات و ماحولیات کے حوالے سے سمندر میں موجود تمر کے جنگلات کی موجودگی لاتعداد فوائد وحفاظت کو یقینی بنانے کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔تمر کے جنگلات صرف 73001ہیکٹرز پر موجود ہیں 1985میں یہ وسعت 228812ہیکٹر تھی مگر اس صورتحال نے مچھلی کے پیداواری ذائع پر بہت برے اثرات ڈالے ہیں اور ماحولیات کی یہ تباہی سمندری طوفان کو جنم دی رہی ہے کیونکہ سندھ کا سمندری کنارہ بحرہند کی سونامی لہروں کے دائرے میں آتا ہے ۔تباہیوں کے سلسلے کی ملکی تاریخ کا جائزہ لیں تو قیام پاکستان کے بعد 1964میں طوفان آیا، 1973میں بارشوں کے سیلاب نے تباہی مچائی ،1976میں دریائی سیلاب آیا ،1994میں د وبارہ برساتی سیلاب آیا ،1999میں A-2سمندری طوفان آیا ،2005میں قیامت خیز زلزلہ آیا ،2010میں فیٹ کے نام سے سمندری طوفان آیا اور 2010میں ہی خطرناک دریائی سیلاب بھی آیا ،جس میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی لیکن 1999کے بعد سمندری طوفانوں کے سلسلے کے طور پر 14سال مکمل ہو گئے ہیں اگرچہ پوری دنیا میں ماحولیات میں تبدیلیاں بڑی تیزی سے رونما ہورہی ہیں اور ان کے اثرات مختلف صورتوں ،سمندروں میں طغیانی کی صورت میں نظر آرہے ہیں ۔ان تباہیوں میں ہونے والے بہت زیادہ نقصان کی وجہ حکومتی اداروں کی بروقت امدادی کاروائیاں نہ کرنا تھیں ۔ہمارے بیوروں کریٹس اور منتخب نمائندے ماضی کی غلطیوں سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کرتے ہیں ہم یہاں 1999کے خطرناک طوفان کا آج بھی ذکر ہو توریاست اسے A-2کے نام سے شناخت کرتی ہے جبکہ طوفان میں نہ صرف لاتعداد لو گ ہلاک ہوئے بلکہ آج بھی ماہی گیری کے دوران کشتیوں کے الٹنے ،ٹوٹنے اور ڈوبنے سے ان گنت ماہی گیر گم ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ انڈیا کی جیلوں سے 14برسوں سے قید ماہی گیروں کے خطوط آج بھی مو صول ہو رہے ہیں جو اپنی حکومت اپنے منتخب نمائندوں اور ورثأ  سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ طوفان کے باعث ہندوستان کی سرحدوں میں داخل ہو گئے تھے جنہیں قید کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا ہے اور کوئی انہیں رہائی دلانے والانہیں ہے ایک اندازے کے مطابق گوٹھ عبدالرحمان دھاندل کے 63،گوٹھ الہہ رکھیو کے 20،گوٹھ بیک بھا ڈائی کے 16،گوٹھ راج ملک کے 7،گوٹھ نور محمد چالکو کے 23، گوٹھ عمر بوریو کے 7،گوٹھ قاسم تھیمور کے 7،گوٹھ بھرونگائی کے 8،سجن واری کے 6،ضلع بدین کے گوٹھ منیچھ وسایو ولاح کے 2،گوٹھ جمعہ ولاح کے 3،گوٹھ یوسف بھٹو کے 3،کڈھن کا ایک ،رینجرزکے گیارہ جوانوں سمیت 300سے زائد انسانی زندگیاں 19مئی 1999کے سمندری طوفان کے نذر ہو گئیں تھیں جبکہ ہزاروں گھر مسمار اور متعدد گوٹھ ویران ہوئے ،2ہزار سے زائد کشتیاں ڈوب گئیں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہوگئی اور ہزاروں مویشی مرنے کے ساتھ روڈ راستے اور سکولوں کی بلڈنگیں بھی تباہ ہوئیں ،اس وقت بھی موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف ہی تھے جنہوں نے بروقت متاثرین کی مدد کے لئے 55کروڑ روپے دینے گوٹھ عبدالرحمان دھاندل کو ماڈل ولیج بنانے اور زندگی کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا ،وزیراعظم نوازشریف نے تین مرتبہ متاثرہ ساحلی پٹی کا دورہ کیا اس کے علاوہ پنجاب ،خیبرپختونخواہ ،بلوچستان کے وزیراعلیٰ ،وفاقی وصوبائی وزراء اور دیگر ممالک کے سفیروں و اہم شخصیات بھی متاثرہ ساحلی پٹی کا جائزہ لیا ،اور متعدد سیاسی وسماجی شخصیات سمیت ملک کی اہم شخصیات نے اشیأ  خوردنوش سے لیکر ضروریات زندگی وہ تمام چیزیں دی جن کی اس وقت ان متاثرین کو ضرورت تھی ،وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو ،کشتیاں ڈوبنے اور جن کی فصلیں تباہ ہوئی ان کے لئے الگ الگ معاوضے کا اعلان بھی کیا تھا اگر کسی گھر کا کفیل ہلاک ہونے والوں میں شامل تھا تو اس کے لواحقین کو ایک لاکھ روپے ،فی کشتی کے 10ہزار اور فی گھر 25ہزار روپے مقرر کئے گئے ،دکھ اگلتی سندھ کی یہ ساحلی پٹی 350کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے جہاں 12لاکھ سے زائد لوگ سمندر سے مچھلی کا شکار کرکے روزگار حا صل کر رہے ہیں ۔

سندھ کا ساحلی علاقہ بنیادی طورپر انڈس ڈیلٹا کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا میٹھا پانی سمندر میں داخل ہوتا تھا یہاں انڈس ڈیلٹا کا ذکر صرف اس لئے کیا جارہا ہے کہ انڈس ڈیلٹا ساحلی پٹی پر لاکھوں لوگوں کے علاوہ زراعت ماہی گیر ی اور ماحولیات پر مشتمل مکمل زندگی ہے۔دریائے سندھ کی17بڑی کریکس کے ذریعے میٹھا پانی سمندر میں داخل ہوکر روزگار کے نئے ذرائع مہیا کرتا تھااورماضی میں چونکہ یہاں بڑی بڑی بندرگاہیں موجود تھیں جہاں سے کاروبار ہوتا تھا ڈیلٹائی علاقوں کے چاول مکھن اور دستکاری کا سامان موجود تھا ۔دنیا کے ساتویں بڑے ڈیلٹا پر باد شاہی کرنے والے آج غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں ماضی کے قصوں کی بجائے اگر موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اعتبار ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح سندھ کی ساحلی پٹی کو تباہ کرنے کی سازش کامیاب ہوئی ۔کوٹری ڈاؤن میں پانی نہ چھوڑنے سے سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے 40لاکھ ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوچکی ہے اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے ڈیلٹائی اضلاع کے شمالی علاقوں کی زمین سیم تھور کے زیراثر آگئی ہے سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے تقریبا12لاکھ 20ہزار 360دیہہ ہیں جن سے 28دیہہ پر سمندرآگے بڑھ آیا ہے جبکہ 14دیہہ کو سمندر نے بری طرح متاثر کیا ہے کیٹی بندر وہ دریائی بندر تھا جہاں بیوپاری انڈونیشیا ء ،ملائیشیاء ،کیرالہ اور چین سے بیوپارکرتے تھے اس وقت جن علاقوں پرسمندر آگے بڑھ آیاہے وہاں لال چاول کی فصل ہوتی تھی جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتی تھی اب وہاں چاول کی فصل صرف 54ایکڑ پرکاشت ہوتی ہے تعلقہ کھاروں چھان میں 235,485ہیکٹرز پر مشتمل 42دیہہ تھیں ۔سمندر نے وہا ں کے20,426ہیکٹرز کو تباہ کردیا ہے اب یہ زمین نہ فصل اگاتی ہے اور نہ ہی دوسرے کسی استعمال میں آسکتی ہے اس طرح تعلقہ گھوڑا بازی میں 231,980ایکڑ ز کی61دیہہ تھیں جن سے 14دیہہ سمندر نے برباد کردی ہیں ساتھ ہی 38,587ایکڑ ز زمین سمندر نگل گیا ہے ۔کھاروچھان کا علاقہ جس کو لال چاولوں کا مرکز کہا جاتا تھا وہاں اب ایک ایکڑ بھی فصل نہیں اگتی ۔کیونکہ دریائے سندھ کی کریکس میں میٹھا پانی آنا بند ہوگیا ہے کھاروچھان کے مغرب میں کیلے ،پپیتے اور زیتون کے باغات ہوتے تھے جو اچھی آمدنی کا ذریعہ تھے اب وہ باغات والی زمین دلدل میں تبدیل ہو گئی ہے انڈس ڈیلٹا میں ماحولیاتی تباہی کے بعد جو سب سے بڑاانسانی المیہ پیدا ہوا وہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آیا ان علاقوں میں کچھ ایسے مشہور دیہات بھی ہیں جو اب ویران ہوگئے ہیں ڈیلٹا میں حالات رہنے کے لائق نہ ہونے کی وجہ سے لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں جن میں کراچی ،حیدرآباد ،بدین اور ٹھٹھہ شامل ہے نقل مکانی کے علاوہ ڈیلٹا کے لوگ روزگار کے لئے اپنا پیشہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،زراعت مال مویشی اور مچھلی پکڑنے والے لوگ نئے نئے پیشے اختیار کرتے ہیں جن میں ان کی کامیابی کی ضمانت کم ہوجاتی ہے ۔مال مویشی کا چارہ ختم ہونے کی وجہ سے لوگ مویشی فر وخت کرنے لگے ہیں متعدد لوگوں کا گزر بسر اب تمر اور جنگلی کیکر کو کاٹ کر انہیں بیچ کر ہوتا ہے جو گیلی 150اور سوکھی 250میں فروخت ہوتی ہیں ڈیلٹا میں جو پہلے خوشحال زمیندار تھے اب وہ تباہ ہوگئے ہیں اس تباہی کی وجہ سے یاتو وہ نقل مکانی کرکے کسی اور پیشہ سے وابستہ ہوگئے ہیں یا پھر ماہی گیری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اعدادوشمار بتاتے ہے کہ ڈیلٹائی عوام کی نقل مکانی کی تعداد 35سے40فیصد ہے ستم یہ کہ لوگوں کے پاس پینے کا پانی تک میسر نہیں ان کے بچے تعلیم جیسے قیمتی زیور سے بھی آراستہ نہیں ہو رہے ہیں اور ان کی صحت کے لئے ہسپتال ومطلوبہ علاج کی سہولت تک میسر نہیں ہیں ۔دوسری جانب حکمرانوں کی بے حسی عدم دلچسپی اور خاموشی کی وجہ سے لالچی اور مفاد پرست لوگوں نے سمندر میں موجود تمر کے جنگلات کی کٹائی کرکے سمندری لہروں ہواؤں اور طوفانوں کو روکنے والے تمر کے جنگلات کی دیوار گرادی ہے اس لئے نئے خطرات بغیر کسی روک تھام کے لوگوں ،گھروں و دیگر وسائل کو تباہ کررہے ہیں پاکستان قائم ہونے پہلے اب تک طوفانوں ،زلزلے ،بارشیں ،سیلاب اور تباہیاں آئی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے اگرچہ یہ بات واضح ہو ہوگئی ہے کہ ہردس سال کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ سندھ کی ساحلی پٹی تباہی کی زد میں آتی رہی ہیں ۔ساحلی رہائش پذیر زیادہ تر ماہی گیر ،مال مویشی چرانے والے اور زرعی آبادگار ہیں ۔زراعت پر دارومدار رکھنے والی آبادی اس وقت تمر کے جنگلات کی طرف رخ رکھتی ہے جب بارشوں کے موسم میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور آبادی کے لائق زمینیں زیرآب آجاتی ہیں اس لئے اس عرصے کے دوران تمر کی عمارتی لکڑی اور جلنے والی لکڑیوں کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے دباؤبڑھ جاتا ہے ۔ماہی گیر اکثر اکتوبر سے مئی تک مصروف رہتے ہیں کیونکہ اس دوران اپنے خاندانوں اور دیہاتوں کو چھوڑ کر مچھلی اور جھینگوں کے شکار کے لئے ساحلی کریکس کے آس پاس میں عارضی جگہوں پر رہتے ہیں ۔بنگالی اور برمیوں کی خالی کی ہوئی کتنی جھونپڑیاں ان علاقوں میں موجود ہیں جن کو مچھلی کے شکار کی موزوں جگہ سمجھی جاتی ہے مچھلی کا شکار کرنے والے لوگوں کو اویسنیا قسم کے تمر کے درخت3میٹر لمبی لکڑی بھی چاہئے ہوتی ہے جن سے وہ اپنے جال باندھ کر چھوٹی کریکس سے وہ مچھلی شکار کر سکیں البتہ ایسی لکڑیوں کی طلب اب کم ہوگئی ہے جب سے ٹرالرزآئے ہیں اور کشتیوں میں ڈیزل انجن لگ گئے ہیں پیشہ ور مال مویشی رکھنے والے ڈیلٹا کے لوگوں کے پاس ساحلی جزیروں پر رہنے کے لئے اونٹ ہوتے ہیں جن کے چاروں طرف کریکس ہیں کیونکہ لہرآنے کے دوران اونٹ پانی میں تیر سکتا ہے عام طورپر اونت پالنے کی جگہ ویسے تو سارا سال ہی ہوتی ہے پر سیلاب وبارشوں کا موسم ختم ہوتے ہی انہیں اندرونی علاقوں کی لے جایا جاتا ہے اگرچہ سیلاب کم ہونے سے یہ سلسلہ کم ہوگیا ہے ساحل سمندر کے دیہاتی اب اپنا مال مویشی آسانی کی جگہوں پر چراتے ہیں جہاں مویشیوں کا چارہ تمر کا اویسنیا کی جنس ہوتا ہے ساحلی دیہاتوں کی انسانی آبادی تمر کے درختوں کو بہت زیادہ استعمال میں لاتی ہیں تمر کے درخت روایتی طور پر عمارتی لکڑی مویشیوں کے چارے اور جلانے کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے غریب آبادی کے غریب اکثر گھروں کی تعمیر کے لئے اویسنیا میرینا تمر کی جنس استعمال کرتے ہیں لیکن تمر کی لکڑی کا زیادہ استعمال جلانے کے طور پر کیا جاتا ہے۔تمر کی لکڑی جلانے کا سستا اور آسان ذریعہ ہے البتہ جہاں گیس ہے وہاں تمر سے جلانے والا دباؤکم ہوگیا ہے ما ضی میں تمر کے درخت اتنے کمزوراورٹیڑے میڑے وتباہ حال نہیں ہوتے تھے جیسے اب نظرآتے ہیں ۔تمر کی موجودہ حالت ان کے استعمال والے نمونے اور میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے ہوئی تقریبا پانچ سوسال پہلے دریائے سندھ شاہ بندر کے پاس سے سمندر میں شامل ہوتا تھا تب وہاں تمر کے جنگلات لمبے اور گھنے ہوتے تھے اس زمانے میں بیو پاری کشتیاں جو درمیانی مشرقی ممالک اور ایشیاء کے بیچ پر لمبے سفر کے لئے آتے تھے ا س وقت پاکستان میں کوئی بھی تمر کا مصرف یا استعمال نہیں تھا کیونکہ نمک کو تیار کئے جانے کی وجہ سے وہاں تمر کے درخت تباہ ہورہے تھے۔کراچی کے ساحلی علاقوں ککا ولیج ،کیماڑی ،ابراہیم حیدری ریڑھی گوٹھ ،کیٹی بندر کھاروچھان ،جاتی اور شاہ بندر کے علاقوں میں بااثرافراد نے منظم طریقے سے سمندر کے کناروں پر بھرائی کرکے قبضے کر لئے ہیں اور اس پر ااواز اٹھانے والے کئی ماہی گیر لینڈ مافیا کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں جبکہ قاتل آزاد دندناتے پھر رہے ہیں پوری ساحلی پٹی پر قابض وڈیرے بڑی ہی تیزی کے ساتھ تمر کے درختوں کی کٹائی کرکے ٹرکوں اور گدھا گاڑیوں کے ذریعے مارکیٹوں اور کارخانوں میں فروخت کر رہے ہیں تمر کے جنگلا ت کو مقامی بااثرافراد غیر قانونی طور پر لاکھوں روپے میں ٹھیکے پر دیتے ہیں جو 200روپے دیہاڑی پر مزدور رکھ کر کٹائی کرواتے ہیں یہ مافیا تمر کے جنگلات کی کٹائی اندر سے کرواتے ہیں تاکہ کٹائی ظاہر نہ ہو سکے اور وہ ظاہر نہ ہو سکیں اس ضمن میں کٹائی کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم کوئی ٹھیکیدار یا وڈیرے نہیں بلکہ مزدور ہیں ہم ان ٹھیکیداروں کو صرف تمر کی لکڑیاں کاٹ کر دیتے ہیں جنہیں بعد میں سمندری کناروں پر کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے۔تمر کی لکڑی کا ایک ٹرک 800اور گدھا گاڑی والا 200روپے کرایہ وصول کرتا ہے جبکہ ٹھیکیدار1000روپے من کے حساب سے فروخت کرکے لاکھوں روپے کماتے ہیں تمر کی کٹائی میں اندھی کمائی دیکھ کر کراچی سے کیٹی بندر تک لالچی اور مفاد پرست افراد اس میں لگ گئے ہیں جس کے باعث تمر کے جنگلات سمندر سے بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں اور سمندر کے کناروں پرماہی گیروں کی آبادیاں غیر محفوظ ہو رہی ہیں تمر کے جنگلات ماحولیات ،انسانی اور آبی حیات کے زندہ رہنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تمر کے جنگلات ماحولیات میں موجود زہریلی ہوائیں جزب کرکے آکسیجن فراہم کرتے ہیں جڑوں میں جھینگے کی افزائش اورحفاظت کرتے ہیں تمر کے گھنے جنگلات تیز ہواؤں اور سمندری لہروں کو روک کر انسانی آبادی کو طوفانوں کی تباہی سے روکتے ہیں اگر جنگلات ختم ہوگئے تو سب سے بڑا نقصان کراچی شہر کو ہوگا اور سونامی جیسے طوفانوں کو روکنے کے لئے کوئی فطری چیز نہیں ہوگی ۔محکمہ جنگلات کے چھوٹے افسران کی رشوت اور بھتہ خوری نے تمر کی کٹائی کو تحفظ فراہم کر رکھا ہے جس پرمحکمہ ماحولیات خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جبکہ سمندری کناروں کے قریب تمر کے جنگلات کو کاٹ کر مٹی کی بھرائی کرکے سمندر کو زمین میں تبدیل کرکے قبضے کئے جارہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی قانونی ادارے اس عمل کو روکنے میں لاچار ہے اگرچہ تمر کے جنگلات ڈیڑھ سو برس پہلے انڈس ڈیلٹا کی مناسبت سے 6لاکھ ہیکٹرز پر تمر کے قد آور درخت کراچی سے سی کریک تک تھے اب کراچی میں ساڑھے چار لاکھ کی جگہ 58ہزار درخت رہ گئے ہیں چونکہ ایک ہیکٹر میں 2.5ایکڑ ہوتے ہیں دریائے سندھ کا پانی انڈس ڈیلٹا میں پھینکنے سے تمر کے چھوٹے پودوں کو غذا ملتی تھی 1892میں ایک سو پچاس ملین ایکڑ فیٹ پانی دریائے سندھ کا پانی بحرہ عرب میں گرتا تھا کیونکہ اس خطے میں دریا اور پانی تھا لیکن بڑی تیزی کے ساتھ ان کی کٹائی کے باعث اب ایک لاکھ چھیاسی ہزرا ہیکٹرز پر تمر کے جنگلات سمندر کے ساحلی علاقوں پر رہ گئے ہیں عمو ما رہ جانے والے درخت تناور وقد آور کی جگہ چھوٹے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ تمر کا ایک پودا ہی ایک سپاہی کی حثیت رکھتا ہے یہ ہمارے لئے خدا کی نعمت ہے کہ باقی بچے درخت کھارے پانی میں موجود ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی دارے، ماحولیات کیلئے کام کرنے والی این جی اوز اورکراچی کے ؂مقامی افراد تمر کے جنگلات کے تحفظ وافزائش کے لئے عملی مگر موثر اقدامات اٹھائیں تمر کی کٹائی اور سمندر میں مٹی کی بھرائی کر کے قبضہ کر نے افرابااثرد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے کیونکہ یہی موثراقدام سیلاب سے بچاؤ،ماحولیات کی بقاء،تمرکے جنگلات کے تحفظ اور لینڈمافیاسے بچاؤکی ضمانت ہوسکتے ہیں۔

جمعہ، 6 فروری، 2015

سندھ میں موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کے تحفظ کے حوالے سے مربوط پالیسی کی کمی ہے

ما حولیاتی کارکردگی انڈکس دوہزار دو کے مطابق پاکستان معاشی ممالک میں ایک سو بیس نمبر پر ۔  

سندھ کا   زرخیز صوبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین  پر آباد ہونے کے باوجود پاکستان شدید غذائی قلت کا شکار کیوں  ؟ 

گر حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے تو یقینا ًبڑھتی ہوئی قلت پر قابوپانے کے لئے اقدامات کو فروغ مل سکتا ہے۔


عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ ،اقتصادی ،سماجی ،اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوا می عہد نامے کے جنرل کمنٹ بارہ اور آرٹیکل گیارہ اعشاریہ ایک ،گیارہ اعشاریہ دو اور آئین پاکستان کے آرٹیکل اڑتیس اعشاریہ ڈی کے  تحت شہریوں کے حق برائے خوراک کو تسلیم کیا گیا ہےاس ضمن میں  حکومت پاکستان کے ڈولپمنٹ وژن بیس سو پچیس اور نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی ڈرافٹ میں بھی شہریوں کے لئے خوراک کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے مگر دنیا میں ایک ارب سے زائد انسانی آبادی آج بھی خوراک کے حق سے  محروم اور دو ارب سے زائد انسان غذائی قلت کا شکار ہیں یہی صورتحال پاکستان میں  بھی ہے یعنی ملک میں بیالیس فیصد افراد کو صرف خوراک میسر ہے جبکہ اٹھاون فیصد افراد آج بھی پاکستان میں خوراک کے حق سے محروم ہیں اگرچہ سندھ ایک کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پر  آباد   ہونے کے باوجودپاکستان کا یہ زرخیز صوبہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے جس کی زندہ مثال تھر پارکر میں معصوم بچوں کی بے حساب اموات ہیں۔  یہ اموات دوران زچگی ماؤں کو مناسب غذا نہ ملنے کے باعث پیدا ہونے والے نومولود کی ہورہی ہیں۔ یعنی سندھ میں اکہتر فیصد لوگ جو سندھ کی ساحلی پٹی اور دیہی علاقوں میں رہتے ہیں غذاکی کمی کے شدید بحران میں مبتلا ہیں ان خیالات کا اظہار مقررین نے پاکستان فشرفوک فورم کے تحت منعقدہ سیمینار بعنوان تحفظ خوراک وموسمیاتی تبدیلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا .

اس موقع پرپاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرکریم احمد خواجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خوراک کا تحفظ ہر شہری کا حق ہے اور حکومت کی پہلی ذمی داری ہے کہ وہ ہر شہری کو خوراک فراہم کرے اس بابت وفاقی سطح پر  پی  پی اور ن لیگ کی مشترکہ کاوشوں سے تحفظ خوراک کے حوالے سے اہم پیش رفت ہورہی ہے ۔سیمینار سے آئی یو سی این کے طاہر قریشی نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندر نئی نسل کے لئے خوراک کا ذریعہ ہے مگر آئل ،انڈسٹری ،تھرمل ودیگر ذرائع سے سمندر میں آلودگی پھیلائی جا رہی ہے اسی لئے کوسٹل ایریاز ختم ہو رہے ہیں سمندری اطراف کے قرب میں رہائش پذیر افراد کو آگاہی کے لئے ریسرچرزاور انسٹیٹیوٹ کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ وہ عوام آگاہی پھیلا سکیں انہوں نے کہا کہ تیمر کے جنگلات کو بڑی تیزی کے ساتھ کا ٹا جا رہا ہے جس سے فشریز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے باہر کے لوگ تیمر کے جنگلات کو کاٹ کر مہنگے داموں لکڑیاں فروخت کرتے ہیں جبکہ پاکستان ریسرچ کونسل کے کامران بخش نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں سے پانی کا ڈرافٹ موجود ہے اگر دیہی علاقوں میں پانی ہوگا تو ہم تحفظ خوراک کی بات کریں لوگ تیزی کے ساتھ شہری آبادیوں کا رخ کررہے ہیں  دیہات سے شہر کی جانب تیس فیصد لوگ منتقل ہو چکے ہیں اسی لئے پاکستان کلائمنٹ چینج کے حوالے سے دنیا میں ایک بڑا خطرہ ہے ۔سیمینار سے پاکستان فشرفوک فورم کے چئیرمین   محمد علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سماجی نا انصافی کی وجہ سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اسی لئے دو بلین لوگ نیوٹریشن ،کیلوری سے محروم ہیں کلائمنٹ چینج کے باعث سب سے زیادہ اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں ۔آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور خوراک میں کمی کا سلسلہ بتدریج جاری ہے دوہزار پچاس تک آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا لیکن ہمارے ملک میں فشریز سیکٹر کو بچانے کے لئے کو ئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ہو رہے ہیں حالانکہ فشریز سیکٹر ،خوراک کے تحفظ ،زراعت میں ہونے والی تباہیوں سے بچانے کے لئے ہنگا می بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہےہمارا ملک زرعی ملک ہے ایٹمی تابکاری کی جگہ ہمیں مثبت ایگریکلچر کی اشد ضرورت درپیش ہے تاکہ انسان کی خوشحالی کی بات ہو سکے کیونکہ ہمارے ملک میں خوراک کا جو مسئلہ ہے یقینا ًدنیا بھر میں ہے۔  سندھ کے اسی فیصد لوگ جن کا تعلق دیہی علاقوں سے  ہے انہیں پانی کاشت کے لئے میسر نہیں جس کے باعث وہ کاشت کاری نہیں کر رہے ہیں اور یوں خوراک کی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہو رہی ہے گر حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے تو یقینا ً بڑھتی قلت پر قابوپانے کے لئے اقدامات کو فروغ مل سکتا ہے اگرچہ دیگر مقررین نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ماحولیا تی تبدیلی کے بڑے جامع خطرات بہت بڑے اور گہرے ہیں اگر گرین ہاوس گیسز کے اخراج کی موجودہ رفتار اسی طرح برقرار رہی تو ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں تک بھوک وافلاس کو کم کرنے کے لئے کی جانے والی تمام کو ششیں رائیگاں جائیں گی ۔تاہم اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے بعض ممالک بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں کمی واقع نہ ہوئی تو عالمی سطح پر یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا یعنی پناہ گزینوں کا مسئلہ ،لکڑی کی قلت ،بڑے شہر اور جزائر پر سیلاب کا آنا ،فصلوں  اور پودوں کا  سڑنا و جانوروں کا تیزی کے ساتھ مرنا ،آب وہوا کا اس تیزی کے ساتھ گرم چلنا کہ کام کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑے انہی گیسز کا مسلسل اخراج ماحولیا تی تبدیلی والے نظام کو بڑے ہی لمبے عرصے تک شدید متاثر اور ناقابل واپسی تبدیلیوں کا سبب بنے گا جو انسانی معاشرے پر بہت اثر انداز ہو گا ۔مقررین نے کہا کہ جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم جرمن واچ کی تبدیلیوں کے حوالے سے سالانہ رپورٹ گلوبل کلائمنٹ رسک انڈکس میں پاکستان کلائمنٹ چینج کے خطرناک اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ان تین ممالک میں تاحال دوہزاردس سے شامل ہے  جبکہ تھنک ٹینک چینج  امپکٹ سٹڈیز سینٹر کی ایک رپورٹ میں پاکستان دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی اوسط شرح میں دوگنا مبتلا ہے ما حولیاتی کارکردگی انڈکس دوہزار دو کے مطابق پاکستان معاشی ممالک میں ایک سو بیس نمبر پر ہے اسی طرح صورتحال موسمیاتی تبدیلی کی  سنگین شکل اختیار ہو رہی ہے اس وقت مجموعی  طور پر سندھ  موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے دوچار ہے اور ساتھ ہی بہت بڑے خطرے کا سامنا  ہے کیونکہ دنیا کے بعض ممالک  کی طرح پاکستان کے سمندری علاقوں میں بھی سمندر کی سطح میں اضافے کے شواہد موجود ہیں ۔مقر رین نے مزید کہا کہ سندھ میں موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کے تحفظ کے حوالے سے مربوط پالیسی کی کمی ہے تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کا تحفظ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے تاہم صوبے میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خوراک کے تحفظ کی پالیسی ایف اے او کے بتائے ہوئے اصول ہر انسان کو ہمہ وقت مناسب ،محفوظ اور غذائیت سے بھر پور خوراک تک رسائی ہونی چاہئے جس سے وہ ایک متحرک اور  صحتمند زندگی گزار سکے  مزید براں خوراک کے تحفظ کو لازم بنانے کے لئے پالیسیوں کو بہتر کیا جائے تاکہ غریب خاندانوں کی  سماجی تحفظ کے ساتھ ساتھ   قوت خرید میں بھی اضافہ ہوسکے اور وہ اپنے لئے خوراک خرید سکیں ممکنہ معاشی اضافہ کے ساتھ متحرک مارکیٹوں میں یکساں روزگار کے مواقع مہیا کئے جائے تاکہ موثر اور زیادہ مثبت ترقی کو تیز کیا جاسکے۔

اس موقع پرپاکستان مسلم لیگ (ن)کی سورتھ تھیبو ،پاکستان فشرفوک فورم کے جنرل سیکرٹری سعید بلوچ ،جمیل جونیجو ،سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام کے پروفیسر اسماعیل کمبھر،پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے کامران بخش ،ایکشن ایڈسندھ کے شاہجہان بلوچ ،سندھ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرجنرل ریاض احمد ابڑو،سندھ فشریز اینڈ لائیو سٹاک کے ڈائریکٹرجنرل غلام محمد ،محکمہ خوراک سندھ کے سیکرٹری سعید اعوان ،محکمہ داخلہ کے چیف سیکرٹری عبدلرحیم سومرو،سنئیر وائس چئیرمین پاکستان فشرفوک فورم فاطمہ مجید ،آئی یو سی این کے طاہر قریشی ،لا ٗڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل سیکرٹری اسلم شیخ سمیت سول سوسائٹی وصحافی بھی موجود تھے۔