جمعہ، 6 فروری، 2015

سندھ میں موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کے تحفظ کے حوالے سے مربوط پالیسی کی کمی ہے

ما حولیاتی کارکردگی انڈکس دوہزار دو کے مطابق پاکستان معاشی ممالک میں ایک سو بیس نمبر پر ۔  

سندھ کا   زرخیز صوبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین  پر آباد ہونے کے باوجود پاکستان شدید غذائی قلت کا شکار کیوں  ؟ 

گر حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے تو یقینا ًبڑھتی ہوئی قلت پر قابوپانے کے لئے اقدامات کو فروغ مل سکتا ہے۔


عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ ،اقتصادی ،سماجی ،اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوا می عہد نامے کے جنرل کمنٹ بارہ اور آرٹیکل گیارہ اعشاریہ ایک ،گیارہ اعشاریہ دو اور آئین پاکستان کے آرٹیکل اڑتیس اعشاریہ ڈی کے  تحت شہریوں کے حق برائے خوراک کو تسلیم کیا گیا ہےاس ضمن میں  حکومت پاکستان کے ڈولپمنٹ وژن بیس سو پچیس اور نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی ڈرافٹ میں بھی شہریوں کے لئے خوراک کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے مگر دنیا میں ایک ارب سے زائد انسانی آبادی آج بھی خوراک کے حق سے  محروم اور دو ارب سے زائد انسان غذائی قلت کا شکار ہیں یہی صورتحال پاکستان میں  بھی ہے یعنی ملک میں بیالیس فیصد افراد کو صرف خوراک میسر ہے جبکہ اٹھاون فیصد افراد آج بھی پاکستان میں خوراک کے حق سے محروم ہیں اگرچہ سندھ ایک کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پر  آباد   ہونے کے باوجودپاکستان کا یہ زرخیز صوبہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے جس کی زندہ مثال تھر پارکر میں معصوم بچوں کی بے حساب اموات ہیں۔  یہ اموات دوران زچگی ماؤں کو مناسب غذا نہ ملنے کے باعث پیدا ہونے والے نومولود کی ہورہی ہیں۔ یعنی سندھ میں اکہتر فیصد لوگ جو سندھ کی ساحلی پٹی اور دیہی علاقوں میں رہتے ہیں غذاکی کمی کے شدید بحران میں مبتلا ہیں ان خیالات کا اظہار مقررین نے پاکستان فشرفوک فورم کے تحت منعقدہ سیمینار بعنوان تحفظ خوراک وموسمیاتی تبدیلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا .

اس موقع پرپاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرکریم احمد خواجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خوراک کا تحفظ ہر شہری کا حق ہے اور حکومت کی پہلی ذمی داری ہے کہ وہ ہر شہری کو خوراک فراہم کرے اس بابت وفاقی سطح پر  پی  پی اور ن لیگ کی مشترکہ کاوشوں سے تحفظ خوراک کے حوالے سے اہم پیش رفت ہورہی ہے ۔سیمینار سے آئی یو سی این کے طاہر قریشی نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندر نئی نسل کے لئے خوراک کا ذریعہ ہے مگر آئل ،انڈسٹری ،تھرمل ودیگر ذرائع سے سمندر میں آلودگی پھیلائی جا رہی ہے اسی لئے کوسٹل ایریاز ختم ہو رہے ہیں سمندری اطراف کے قرب میں رہائش پذیر افراد کو آگاہی کے لئے ریسرچرزاور انسٹیٹیوٹ کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ وہ عوام آگاہی پھیلا سکیں انہوں نے کہا کہ تیمر کے جنگلات کو بڑی تیزی کے ساتھ کا ٹا جا رہا ہے جس سے فشریز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے باہر کے لوگ تیمر کے جنگلات کو کاٹ کر مہنگے داموں لکڑیاں فروخت کرتے ہیں جبکہ پاکستان ریسرچ کونسل کے کامران بخش نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں سے پانی کا ڈرافٹ موجود ہے اگر دیہی علاقوں میں پانی ہوگا تو ہم تحفظ خوراک کی بات کریں لوگ تیزی کے ساتھ شہری آبادیوں کا رخ کررہے ہیں  دیہات سے شہر کی جانب تیس فیصد لوگ منتقل ہو چکے ہیں اسی لئے پاکستان کلائمنٹ چینج کے حوالے سے دنیا میں ایک بڑا خطرہ ہے ۔سیمینار سے پاکستان فشرفوک فورم کے چئیرمین   محمد علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سماجی نا انصافی کی وجہ سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اسی لئے دو بلین لوگ نیوٹریشن ،کیلوری سے محروم ہیں کلائمنٹ چینج کے باعث سب سے زیادہ اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں ۔آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور خوراک میں کمی کا سلسلہ بتدریج جاری ہے دوہزار پچاس تک آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا لیکن ہمارے ملک میں فشریز سیکٹر کو بچانے کے لئے کو ئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ہو رہے ہیں حالانکہ فشریز سیکٹر ،خوراک کے تحفظ ،زراعت میں ہونے والی تباہیوں سے بچانے کے لئے ہنگا می بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہےہمارا ملک زرعی ملک ہے ایٹمی تابکاری کی جگہ ہمیں مثبت ایگریکلچر کی اشد ضرورت درپیش ہے تاکہ انسان کی خوشحالی کی بات ہو سکے کیونکہ ہمارے ملک میں خوراک کا جو مسئلہ ہے یقینا ًدنیا بھر میں ہے۔  سندھ کے اسی فیصد لوگ جن کا تعلق دیہی علاقوں سے  ہے انہیں پانی کاشت کے لئے میسر نہیں جس کے باعث وہ کاشت کاری نہیں کر رہے ہیں اور یوں خوراک کی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہو رہی ہے گر حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے تو یقینا ً بڑھتی قلت پر قابوپانے کے لئے اقدامات کو فروغ مل سکتا ہے اگرچہ دیگر مقررین نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ماحولیا تی تبدیلی کے بڑے جامع خطرات بہت بڑے اور گہرے ہیں اگر گرین ہاوس گیسز کے اخراج کی موجودہ رفتار اسی طرح برقرار رہی تو ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں تک بھوک وافلاس کو کم کرنے کے لئے کی جانے والی تمام کو ششیں رائیگاں جائیں گی ۔تاہم اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے بعض ممالک بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں کمی واقع نہ ہوئی تو عالمی سطح پر یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا یعنی پناہ گزینوں کا مسئلہ ،لکڑی کی قلت ،بڑے شہر اور جزائر پر سیلاب کا آنا ،فصلوں  اور پودوں کا  سڑنا و جانوروں کا تیزی کے ساتھ مرنا ،آب وہوا کا اس تیزی کے ساتھ گرم چلنا کہ کام کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑے انہی گیسز کا مسلسل اخراج ماحولیا تی تبدیلی والے نظام کو بڑے ہی لمبے عرصے تک شدید متاثر اور ناقابل واپسی تبدیلیوں کا سبب بنے گا جو انسانی معاشرے پر بہت اثر انداز ہو گا ۔مقررین نے کہا کہ جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم جرمن واچ کی تبدیلیوں کے حوالے سے سالانہ رپورٹ گلوبل کلائمنٹ رسک انڈکس میں پاکستان کلائمنٹ چینج کے خطرناک اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ان تین ممالک میں تاحال دوہزاردس سے شامل ہے  جبکہ تھنک ٹینک چینج  امپکٹ سٹڈیز سینٹر کی ایک رپورٹ میں پاکستان دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی اوسط شرح میں دوگنا مبتلا ہے ما حولیاتی کارکردگی انڈکس دوہزار دو کے مطابق پاکستان معاشی ممالک میں ایک سو بیس نمبر پر ہے اسی طرح صورتحال موسمیاتی تبدیلی کی  سنگین شکل اختیار ہو رہی ہے اس وقت مجموعی  طور پر سندھ  موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے دوچار ہے اور ساتھ ہی بہت بڑے خطرے کا سامنا  ہے کیونکہ دنیا کے بعض ممالک  کی طرح پاکستان کے سمندری علاقوں میں بھی سمندر کی سطح میں اضافے کے شواہد موجود ہیں ۔مقر رین نے مزید کہا کہ سندھ میں موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کے تحفظ کے حوالے سے مربوط پالیسی کی کمی ہے تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کا تحفظ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے تاہم صوبے میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خوراک کے تحفظ کی پالیسی ایف اے او کے بتائے ہوئے اصول ہر انسان کو ہمہ وقت مناسب ،محفوظ اور غذائیت سے بھر پور خوراک تک رسائی ہونی چاہئے جس سے وہ ایک متحرک اور  صحتمند زندگی گزار سکے  مزید براں خوراک کے تحفظ کو لازم بنانے کے لئے پالیسیوں کو بہتر کیا جائے تاکہ غریب خاندانوں کی  سماجی تحفظ کے ساتھ ساتھ   قوت خرید میں بھی اضافہ ہوسکے اور وہ اپنے لئے خوراک خرید سکیں ممکنہ معاشی اضافہ کے ساتھ متحرک مارکیٹوں میں یکساں روزگار کے مواقع مہیا کئے جائے تاکہ موثر اور زیادہ مثبت ترقی کو تیز کیا جاسکے۔

اس موقع پرپاکستان مسلم لیگ (ن)کی سورتھ تھیبو ،پاکستان فشرفوک فورم کے جنرل سیکرٹری سعید بلوچ ،جمیل جونیجو ،سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام کے پروفیسر اسماعیل کمبھر،پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے کامران بخش ،ایکشن ایڈسندھ کے شاہجہان بلوچ ،سندھ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرجنرل ریاض احمد ابڑو،سندھ فشریز اینڈ لائیو سٹاک کے ڈائریکٹرجنرل غلام محمد ،محکمہ خوراک سندھ کے سیکرٹری سعید اعوان ،محکمہ داخلہ کے چیف سیکرٹری عبدلرحیم سومرو،سنئیر وائس چئیرمین پاکستان فشرفوک فورم فاطمہ مجید ،آئی یو سی این کے طاہر قریشی ،لا ٗڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل سیکرٹری اسلم شیخ سمیت سول سوسائٹی وصحافی بھی موجود تھے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں