جمعہ، 30 جنوری، 2015

اسلام میں عورت کے حقوق کا تحفظ

نسل انسانی کے ارتقاء اور فروغ کے لئے رب کائنات نے مردوزن کا وجود پیدا کیااور ان دونوں کے وجود کے باہمی ملاپ سے انسانی نسل کا ارتقاء عمل میں آیا۔شادی اس ملاپ کانام ہے جوصدیوں سے انسان مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں اپنی اپنی رسوم کے مطابق کرتے ہیں اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا جبکہ نکاح وہ معاہدہ ہے جس کی رو سے عورت اور مردایجاب وقبول کامل اپنی مرضی اور رضا مندی سے باہمی طور پر طے کرکے اس کا اعلان کرتے ہیں۔چونکہ نکاح کا عمل صدیوں سے رائج ہے اسی لئے اسلام میں عورت کے حقوق کا تحفظ اور نکاح کے موقع پر عورت کو اہمیت دی گئی ہے کہ عورت نکاح میں اپنی مرضی کا ظہار کردے تو نکاح نہیں ہو سکتا ہے ۔



مرد کی جانب سے ایجاب اور عورت کے قبول کرنے کے عمل کو نکاح کہتے ہیں نکاح عورت کے حقوق کوتحفظ دینے اور اسے یقینی بنانے کا نام ہے نکاح نامہ عملی طور ایک مقدس دستاویزات سمجھا جاتا ہے جس کو بوقت نکاح مولوی صاحب کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ اپنی آسانی اور لوگوں کی کم فہمی کے پیش نظر ہمیشہ اسے ادھورا چھوڑ کر اپنا فرض نبھاتا ہے جو کہ سرا سر غلط اور قوانین کے حقوق کے تابع باقاعدہ طور پر نکاح نامہ کے فارم ان کی رجسٹریشن اور ان پر عملدرآمد کے لئے قوانین بھی مرتب کئے گئے ہیں جس میں سر فہرست حق مہر ہے جوکہ ایک بنیادی حق بھی ہے نکاح نامہ قطعا کوئی مقدس دستاویز نہیں ہے مگر نکاح نامہ کی شرائط عائلی قوانین کے طے شدہ ہیں جن میں ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ ایک سماجی معاہدہ ہے اس لئے نکاح نامہ کی مہر شق کو اختیار کے ساتھ تحریر کرنا انتہائی ضروری ہے مگر ہم بوقت نکاح نامہ اس اہم نکتہ فراموش کردیتے ہیں اور بہت سی اہم شقوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں تو تب اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے ایک وقت تھا کہ طلاق ایک متروک لفظ تھا مرد بھی طلاق کا لفظ زبان پر لانے سے ہچکچاتے تھے لیکن خاندانوں کے درمیان مضبوط سماجی روابط اور اخلاقی روایات کے پیش نظر مشکل ترین حالات میں بھی میاں بیوی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے مگر آج تیزی سے روایات ،خاندانوں کی تقسیم درتقسیم مسابقت کی دوڑبیجا آزادی میڈیا کی اثر اندازی اور خصوصا مردوزن کے مطابق باہمی اختلاف توقعات کی بسیاری نے حالات کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے لیکن آج طلاق کی شرح تین طلاق یومیہ سے بڑھ رہی ہے خدشہ ہے کہ پاکستان طلاق کی شرح میں کہیں دیگر ممالک کی طرح آگے بڑھ جائے آج بھی 40%خواتین اپنی تمام ترآزادی اور خودمختاری کے باوجود نکاح کے وقت مشرقی خواتین اپنے نکاح کی شرائط خودطے نہیں کرسکتی ہیں اس ضمن میں آہنگ نے سال 2012میں ایک کمیونٹی لیول پر سروے بھی کیا گیا جس میں پہلے حیدرآباد کے صرف چاروں تعلقہ لطیف آباد ،حیدرآباد سٹی ،قاسم آباد کے ایک ہزار لوگوں سے دریافت بھی کیا گیا جس میں 62%عورتوں نے بتایا کہ انہیں پتہ نہیں کہ طلاق دینے کا حق حاصل ہے یا نہیں ہے 90%لوگوں نے دوسری شادی کے متعلق آگاہی سے محروم ہیں لیکن صرف 8%لڑکیوں نے اظہار نالج کی بات کی جبکہ آج بھی 65%لڑکیوں کی شادی 16برس سے قبل ہی کردی جاتی ہے جس میں ان لڑکیوں سے اجازت تک نہیں مانگی جاتی ہے جو 1961کے مسلم فیملی ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے جبکہ لڑکیوں کی سیصلہ سازی کی قوت اور تعلیم تک رسائی عملی طور پر ممکن نہیں رہتی ہے مذکورہ معاملات پر سیر حاصل بحث کو فروغ دے کر صوبائی اسمبلی کے ممبران فیصلہ ساز شخصیات اور سرکاری افسران نے ضلعی وصوبائی سطح پر(کم عمری کی شادی پرپابندی کے بل 2013)کو سندھ اسمبلی سے پاس کرنے کی راہ ہموار کی اس بل میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کم از کم 18برس تجویز کی گئی ہے پاس ہونے والے بل سے تبدیلی کی امید ہے



 لیکن شادی کے وقت لڑکی کی عمر اٹھارہ برس ہے اس کی مکمل تصدیق ہونی چاہیے کمسنی کی شادیوں میں لڑکیوں کو ان کے حقوق سے محروم اور شرائط کا خانہ خالی رکھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے نکاح نامہ کے پیرا نمبر 16,17,18,اہم شرائط ہیں مگریہ اہم شرائط کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے نظر انداز کردی جاتی ہیں حالانکہ نکاح نامہ میں واضح طور پر جب یہ تحریر ہے کہ کوئی اور شرائط تو اس کے تحت خواتین کا ماہوار جیب خرچ بصورت ناچاقی ان کے خرچہ ونان نقطہ اور بچوں کی پرورش کی بابت حفظ ماتقدم کے طور پر تمام شرائط آپس میں طے کر کے تحریر کی جاسکتی ہیں اس لئے اس اہم پیرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس کے علاوہ بھی جو شرائط قانونی وجائز ہوں وہ اس پیرے میں درج کی جاسکتی ہیں دوسرا اہم پیرا نمبر جس میں عورت کو طلاق کا حق تفویض کیا گیا یانہیں لکھا گیا ہے اس پیرا کی اہمیت اس لئے بھی ہے مردجب عورت کو طلاق دیتا ہے تو چند سیکنڈ میں اپنی زوجیت سے آزاد کردیتا ہے اور کھڑے کھڑے اس کو اپنے گھر سے نکال دیتا ہے یا قانونی طور پر صرف پندرہ روپے کے اسٹامپ پیپر پر طلاق نامہ تحریر کرکے عورت کو تھما کر اسکو آزاد کردیتا ہے مگر جب عورت نا مساعد حالات میں آزادی چاہتی ہے تو اس کو ہزار قسم کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہےعدالتوں میں مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے گواہ پیش کرنے پڑتے ہیں انتہائی فضول قسم کی الزام تراشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے شہادتوں اور بحثوں کے طویل عمل کے بعد ریزہ ریزہ ہو کر کہیں طلاق کی اہل قرار پاتی ہے جس کےلئے اس کو اپنے کئی  حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور مرد کی جانب سے دئے گئے تحائف وغیرہ واپس کرنے پڑتے ہیں جبکہ اس دوران اس کے ساتھ اس کا پورا خاندان کربناک اذیت کا شکار رہتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ عورت کا یہ قانونی اور جائز حق دیا جائے کہ وہ بھی اگر چاہے تو مرد کو طلاق دےسکے عورت چونکہ کم فہم ہوتی ہے اور جذبات میں آکر اس حق کو غلط استعمال کرسکتی ہے لیکن جب خوشی وخرم ازدواجی زندگی گزار رہی ہوتو چند واقعات کو چھوڑ کر کوئی بھی عورت ایسی سوچ کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اپنے خوش وکرم گھر کو مسمار کردے کیونکہ طلاق ہمیشہ ناگزیر صورت میں ہی ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا حق حاصل ہونے کے باوجود وہ یہ حق استعمال میں کوئی تامل نہیں کرتے اس لئے عورت کو طلاق کا حق تفویض کرتے وقت یہ شرائط عائد کی جاسکتی ہے کہ عورت طلاق کاحق صرف اس وقت اتعمال کرسکتی ہے جب اسکے والدین یا والدین کی عدم موجودگی مین بہن بھائیوں میں سے کم از کم دوافراد کی رضا مندی حاصل ہوتاکہ یہ فرد واحد کا جذباتی فیصلہ نہ ہو اس حق کو تفویض کرنے کے بعد پھر عورت بھی اس طرح اپنے حق کو استعمال کر سکتی ہے شادی جو کہ دو افراد کے درمیان ازدواجی بندھن ہونے کے باوجود کچے دھاگے کی مانند ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے اس لئے احتیاطی تدابیر کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے کیونکہ بعض خواتین کو گھریلو اازادی جب ملتی ہے تو وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں جس کی وجہ سے گھریلو خواتین کو بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی ہے جس سے گھریلو لڑکیوں میں سخت مایوسی اور وہ ڈری سہمی ہوئی سی رہتی ہیں ایسی گھریلو خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی ٖضرورت ہے آج شہر کی عورتوں نے کافی مضبوط قدم جما رکھا ہے لیکن دیہاتوں میں رہنے والی خواتین بھی کم نہیں ہیں پچھلے دس برسوں میں خواتین نے گھروں سے باہر قدم رکھا اور آج مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں اور مختلف شعبوں کے اندر ترقی کے زینے طے کر رہی ہیں اگر والدین اپنے بچوں پر اعتماد کریں تو ان کی ہچکچاہٹ ،مایوسی ختم ہو اور وہ بھی دوسروں کی طرح آگے بڑھ سکیں ۔

1 تبصرہ:

  1. Ye sab baten sahi hain. Or nikah name main 4 aziz o aqarib ki bohot zarorat hoti hai. Lekin aj kal 1 kisi bhi gawah par nikah hojata hai.

    جواب دیںحذف کریں