جمعہ، 15 مئی، 2015

پاکستان میں فسٹیولاکی شکار خواتین کی تعداد50ہزار سے ایک لاکھ تک جا پہنچی ۔۔۔۔!!

بدقسمتی سے ہر سال 5ہزار خواتین کے اضافے کی وجہ سے پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں فسٹیولا میں مبتلا خواتین کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے ۔۔ جبکہ دنیا بھر کی 2ملین خواتین فسٹیولا کا شکار ہو کر معاشرے سے علیحدگی پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ڈاکٹر ثمینہ ناز


دنیا بھر میں فسٹیولا کا عالمی دن 23مئی کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد فسٹیولا جیسی قابل علاج بیماری سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے اور ا س کی تھیم خواتین کی زندگیاں بچانا ہے کیونکہ فسٹیولا زچگی کے دوران طوالت کے باعث پیدا ہوجاتی ہے دنیا بھر میں اس کی شکار خواتین کی تعداد 2ملین تک جاپہنچی ہے جبکہ پاکستان میں اس کی تعداد میں ہر سال 5ہزار سے زائد سے خواتین مبتلا ہو رہی ہیں تاہم اس کی کل تعداد 50ہزار اے ایک لاکھ کے درمیان جو ہر سال بڑھ رہی ہے ۔فسٹیولا کی بیماری بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں بسنے والی خواتین میں زچگی کا دورانیہ طویل ہونے سے بچے کا پھنس جانا اور بسا اوقات پاخانے کی تھیلیوں میں سوراخ ہوجاتے ہیں جس سے مسلسل پیشاب اور پاخانہ بہتا رہتا ہے جس کے باعث ہزاروں خواتین ہرسال اس شرمناک بیماری کی وجہ سے معاشرے سے دور ہوکر رہ جاتی ہیں ۔اس بیماری کی بنیادی وجہ معاشرتی ناہمواری ،فرسودہ رسم ورواج ،غربت،تعلیم کی کمی ،فیملی پلاننگ کی سہولتوں کی عدم دستیابی،تربیت یافتہ صحت کے کارکنوں کی کمی اور علاقائی سطح پر بنیادی سہولتوں کا ناپید ہونا شامل ہے ۔اسی وجہ کر 21نومبر 2012ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد کے ذریعے ہر سال 23مئی کو فسٹیولا کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا تاکہ دنیا بھر میں ماؤں کو صحت کے حوالے سے آگاہی اجاگر کی جاسکے اور فسٹیولا جیسی مہلک بیماریوں سے بچا جا سکے ۔اس ضمن میں معروف گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر ثمینہ ناز کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 2ملین خواتین فسٹیولا کا شکار ہوکر معاشرے سے علیحدگی پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔



ملک بھر میں 13طبی مراکز ایسے ہیں جہاں پر مریضوں کا ناصرف مفت علاج کیا جاتا ہے بلکہ انہیں سفری اخراجات بھی دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ فسٹیولا مراکز میں پہنچ سکیں اگرچہ یہ مراکز کراچی،حیدرآباد،ملتان ،لاہور،کوئٹہ ،پشاور،اسلام آباد اور لاڑکانہ میں واقع ہیں جبکہ کراچی کے مرشدہسپتال میں بھی فسٹیولا کا علاج بالکل مفت کیا جا رہا ہے۔اگر حکومت پاکستان یہ عہد کرے کہ فسٹیولا کا خاتمہ ملینئیم ڈویلپمنٹ ہدف کو پورا کرنا ہے تو بڑے پیمانے پر مڈوائف کی ٹریننگ شروع کرنا ہوگی تاکہ ہر حاملہ خاتون کی دیکھ بھال اور زیرنگرانی زچگی کا عمل ممکن بنایا جا سکے اور فسٹیولا سے بچاؤ ہو سکے۔جس کے لئے تمام بنیادی صحت کے مراکز ،دیہی صحت کے مراکز کو مکمل طور پر کام شروع کرنا ہوگا تاکہ خواتین کو بنیادی و ایمر جنسی صحت کی سہولیات میسر آسکیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ایک سروے کے مطابق لڑکیوں کی شادی 15برس اور 18برس کی عمر میں کردی جاتی ہے جبکہ بعض کم عمری کی شادیوں کے نتیجے میں ماؤں کی شرح اموات ایک لاکھ میں سے 276اور بچوں کی 1000میں سے 78تک جا پہنچی ہے کم عمری کی شادی ان لڑکیوں کے جسم کو تباہ کردیتی ہے جبکہ ملکی قوانین کے مطابق لڑکی کی عمر 18برس ہونی چاہئے کیونکہ کم عمر کمزور اور نامکمل تولیدی ڈھانچہ بچوں کی مسلسل پیدائش کے نتیجے میں پڑنے والے بوجھ کو برداشت نہیں کر پاتا ہے ۔کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان شرح آبادی میں تیز ترین اضافے کی صورت میں سامنے آرہا ہے چونکہ بڑھتی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے اور انہی کم عمر لڑکیوں میں سے زیادہ تر لڑکیاں فسٹیولا کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ زچگی کے دوران اموات اور فسٹیولا جیسی بیماریوں کا تناسب کم عمر لڑکیوں میں خاصا زیادہ پایا جاتا ہے کم عمر ی میں ماں بننے کے مراحل سے گزرتی ان لڑکیوں کو دوران زچگی نہ صرف پیچیدگیوں بلکہ قبل از وقت پیدائش جیسے مسائل کو برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا وزن بچے کی پیدائش کی صورت میں نکلتا ہے اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی لڑکیوں میں کم عمری کی شادی ان کی تولیدی صحت پر بھاری بوجھ بن جاتی ہے اور کم عمری میں جنسی فعالیت لڑکیوں کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ نامکمل تولیدی نظام کی حامل لڑکی جب زچگی کے عمل سے گزرتی ہے تو اکثر فسٹیولا کا شکار ہو جاتی ہے جس کے باعث اس کی اندام نہانی ،مثانہ اور بڑی آنت کا آخری حصہ پھٹ جاتا ہے ۔کم عمری کی شادی دراصل قبل از وقت زچگی کا باعث ہوتی ہے اور کمزور تولیدی نظام ،ہیمبرج ،انفیکشن اور ایکلیمیشیا کی شکل میں عورت کی موت کو یقینی بنا دیتا ہے ۔کم عمر ی میں ماں بننے والی لڑکیاں کم وزن ،وٹامن کی کمی کے باعث خون کی قلت کا بھی شکار ہوتی ہیں ۔18برس کی عمر سے قبل تولیدی مراحل سے گزرنے والی لڑکی کی پیڑوں کی ہڈی کی نامکمل بڑھوتری نارمل سائز کے بچے کو جنم دینے میں رکاوٹ بنتی ہے اور اکثر ایسے بچے ان بچون کے مقابلے میں اپنی پیدائش کے پیلے برس ہی میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔کم عمری کی شادی لڑکی کی ذہنی صحت کے لئے بھی بوجھ ثابت ہوتی ہے عموما ایک بڑے گھراور شوہر کی ضروریات کو پورا نہ کرسکنے کی وجہ سے مسلسل جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار بنتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر پریشان ہو کر رہ جاتی ہے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ لڑکیاں بدلتے ماحول ،حالات اور دباؤ کے باعث خودکشی بھی کر لیتی ہیں ان تمام تر معاملات کا نتیجہ بڑی عمر کے مردوں کی چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے شادی کی صورت میں نکلتا ہے اگرچہ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ کئی ملکوں میں اب بھی کم عمر بچیوں کی شادی کا رواج موجود ہے ۔


انہوں نے بتایا کہ کم عمری میں کی جانیوالی بچیوں کی شادی میں ہونے والی اس بیماری کی شرح بہت زیادہ ہے کیونکہ کم عمری میں شادی کرنے والی لڑکیوں کے جسم کی ہڈیا ں کمزور ہوتی ہیں جسم اور ہڈیوں کی مکمل نشونما سے پہلے اگر ان کے ہاں بچے پیدا ہوں تو ان کو فسٹیولا کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کم عمری میں شادی شدہ لڑکیاں جہاں دیگر مسائل کا شکار ہوتی ہیں وہیں یہ بیماری ان کے لئے شدید پریشانی کا سبب بھی بنتی ہے جس بابت یہ خدشہ بھی ہے کہ پاکستان 2015تک اقوام متحدہ کے زچگی کے شرح اموات میں کمی لانے کے احداف تک نہیں پہنچ پائے گا جبکہ پاکستان کو اس حدف کے تحت زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں ایک تہائی کمی لانا تھی ۔ان کے مطابق اگر پاکستان 1990میں اقوام متحدہ کے کنونشن پر کئے گئے دستخط کے بعد سے عمل درآمد کرواتا تو یقیناًآج پاکستان میں ان کم عمر ماؤں کو فسٹیولا جیسی بیماری لاحق نہ ہوتی اور نہ ہی ان کی شرح اموات میں حد درجہ اضافہ ہوتا لہذا پاکستان آج بھی ان کم عمر ماؤں یعنی ان کم عمر ی کی لڑکیوں کی شادی رکواکر انہیں صحت کے پیچیدہ مسائل سمیت کم ماؤں کی بڑھتی شرح اموات میں کمی اور فسٹیولا جیسی بیماری سے نجات دلا سکتا ہے ۔

منگل، 10 مارچ، 2015

خواتین معاشرے کی تبدیلی مں اہم جزو کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کر سکتی ہیں ۔آر ایل سی سی

دنیا بھر کے رسمی وغیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین کی جدوجہد دنیا بھر جہاں اپنا رنگ بکھیر رہی ہے وہیں پاکستان کے شہر کراچی کی خواتین بھی انمول ہیروں سے کم نہیں ہیں ۔شہرکے دامن میں موجود یہ خواتین اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات باہم پہنچا رہی ہیں مگر اتنے کم معاوضے کے عوض اپنے ہاتھوں سے ان اشیاء کی تیاری کے دوران انہیں کئی اہم مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے باوجودخواتین کاحوصلہ ہے کہ ان میں آگے بڑھنے کی جدوجہد ہے یہ جدوجہد ہی آج دنیا بھر میں رنگ لارہی ہے شہر قائد کی یہ خواتین جو سماجی ،اقتصادی،ثقافتی اور بگڑے ہوئے معاشرے کی مایوسی کو تبدیل کرنے کے لئے ایک مظبوط پاکستان کی تعمیر کر رہی ہیں ۔پاکستان کی ہنرمندخواتین نے پاکستان کو بھی دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل کروایا ہے جہاں خواتین کی ترقی کے لئے بنیادی اقدامات کو فروغ دیا جاتاہے۔


1954میں بیگم رانا لیاقت نے شہر کے دامن میں (آرایل سی سی )یعنی رانا لیاقت کرافٹمینز کالونی کا سنگ بنیاد رکھا جہاں خواتین کو گھریلوں دستکاری سے متعلق تربیت دی جانے لگی رفتہ رفتہ خواتین کو تربیت اور معاوضہ بھی فراہم کیا جانے لگا کیونکہ بیگم رانا لیاقت کا مقصد صرف تربیت فراہم کرنا نہیں تھا ان کے مقاصد میں خواتین کو مکمل تربیت فراہم کرنا تھی تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں اسی طرح یہ ووکیشنل ٹریننگ خواتین کو دوسروں اہم شعبوں میں بھی تربیت فراہم کرتا ہے جہاں سے خواتین مزید آگے بڑھ سکتی ہیں ۔ان خواتین کی دوران تربیت تیار کردہ چیزوں کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کے لئے مختلف مقامات پر منعقدہ نمائش میں رکھا جاتا ہے ۔نمائش میں ان چیزوں کو فروخت بھی کیا جاتاہے جس کی آمدنی کا فائد ہ تیار کرنے والی خواتین کو ہوتا ہے کیونکہ ادارہ آر ایل سی سی بغیر کسی منافع کے ان خواتین کو تربیت فراہم کرتا ہے ان خواتین کو ان کے مقام تک پہنچانے کے لئے اپنا عملی کردار بھی ادا کرتا ہے بعض خواتین تربیت حاصل کرنے کے بعد زیادہ تر آر ایل سی سی کے لئے ہی کام کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہاں کا ماحول انتہائی اچھا ہے یہاں کی خواتین ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کرتی ہے اور مکمل رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے اور بعض خواتین اپنے ہی گھروں میں بیٹھ کر نا صرف آر ایل سی سی بلکہ دیگر اداروں کے لئے بھی کا م کرتی ہیں اور یوں ان کی آمدنی میں اضافے کا باعث ادارہ آر ایل سی سی ہی بنتا ہے ۔


آر ایل سی سی کے تحت ناصرف سلائی ،کڑھائی بلکہ جدید ٹیکنالوجی یعنی کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ بیوٹیشن ، مفت انگلش لیگویج کورسز ، شاپنگ بیگزکی تیاری،کشن کور کی سلائی شرٹس کی سلائی کی بھی تربیت دی جاتی ہے کیونکہ 150سے زائد چیزوں کو ادارہ آر ایل سی سی تیار کرتا ہے جنہیں پاکستان کے بیشتر ادارے آرڈر بھی تیار کرواتے ہے ان چیزوں کی تیاری کے دوران مطلوبہ اشیاء کو مارکیٹ سے خریدا جاتا ہے جس کا مکمل حساب کمپیوٹرائزڈہے تاکہ محنت کش خواتین کو ان کا مکمل معاوضہ مل سکے ۔چونکہ شہر میں شاپنگ بیگز کا استعمال زیادہ ہے اس لئے یہاں شاپنگ بیگز کو یہاں زیادہ تعداد میں تیار کیا جاتا ہے ۔شاپنگ بیگز جو آسانی سے تیار ہوجاتے ہیں یہ زیادہ خواتین کی آمدنی کا ذریعہ ہیں کیونکہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کا زیادہ وقت گھر کی دیکھ بھال میں ہی گزر جاتا ہے اس لئے وہ آسان کام کو ہی ترجیح دیتی ہیں جبکہ زیادہ تر خواتین آر ایل سی سی میں بیٹھ کر ہی کام کو سرانجام دیتی ہیں ان کے نزدیک گھروں میں کام کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے آر ایل سی سی انہیں کام کے ساتھ جگہ کا استعمال بھی مفت فراہم کرتا ہے ۔


آر ایل سی سی جو عرصہ دراز سے خواتین کو تربیت فراہم کر رہا ہے دراصل یہ ادارہ ان خواتین کے حقوق کی عکاسی کرتا ہے اسی لئے خواتین یہاں مکمل اعتمادواطمینان کے ساتھ یہاں کام کرتی ہیں ۔آرایل سی سی خواتین کو روزگار کے حصول کے لئے صرف تربیت ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ ان کی صحت اور ان کے بچوں کی تعلیم کا بھی مکمل خیال رکھتا ہے یہاں کام کرنے والی خواتین کے اکثر بچے آر ایل سی سی کے سکول میں معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔آرایل سی سی کلینک کمیونٹی کی ہر عورت کو صحت کی بنیادی سہولیات باہم پہنچا رہا ہے کلینک میں روزانہ کئی مریض خواتین ورکرز کے علاوہ بھی آتی ہیں ٹیم گھر گھر جاکر کمیونٹی میں ایک نشست کا اہتمام بھی کرتی ہے جس کا مقصد خواتین کو گھر کے اندر رہتے ہوئے ہی آگاہی دینا ہے ناصرف یہ بلکہ کلینک میں خواتین کو ہیپاٹائٹس بی سی ،ایچ آئی ایڈز سمیت دیگر بیماریو جنہیں علاج معالجہ کی بہتر سہولت فراہم کی جاتی ہے یہاں موجود ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ یہاں خواتین کو تمام بیماریوں سے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اوردوران زچگی خواتین کو بہتر رہنمائی بھی لیکن یہاں کسی بھی خاتون کو دوران زچگی رکھا نہیں جا تا ہے لیکن آرایل سی سی کے تحت اس ضمن میں انہیں شہر کے پرائیویٹ وسرکاری ہسپتالوں میں داخل بھی کروایا جاتا ہے ۔آر ایل سی سی جو خواتین کو مکمل با اختیا ر بنا نے کا عزم رکھتا ہے اور کئی مختلف پروجیکٹس کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنا بھی رہا ہے۔آرایل سی سی کی پروجیکٹ ایڈمنسٹریٹرکا کہنا ہے کہ آر ایل سی سی کمیونٹی کی خواتین کو مکمل بااختیار بنانا چاہتا ہے کیونکہ یہ خواتین معاشرے کی تبدیلی کا اہم جزو ہیں لہذا جامع اقدامات سمیت خواتین کو سماجی انصاف ،بنیادی حقوق کا تحفظ ،تعلیم وتربیت اور ترقی کے بھر پور مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ ملک میں خوشحالی اور ترقی کے مقاصد حاصل ہو سکیں۔


جمعہ، 6 مارچ، 2015

کیا حکومت ہوم بیسڈ ورکرز کو ورکرز تسلیم کرتے ہو ئے انہیں ان کا حق دے گی؟

پاکستانی خواتین کی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر  حکومت پاکستان کی جانب امید کی نظریں۔۔۔۔۔



دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی بلا شرکت غیر اجارہ داری نے جہاں تمام انسانی بھلائی کو متاثر کیا ہے وہیں عورتیں بھی اس سے بہت بری طرح متاثر ہو ئی ہیں آج صنعتوں اور کمرشل سیکٹر کی عورتیں دن میں 10سے 12 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی اکثریت کو کم از کم اجرت بھی حاصل نہیں ہے زیادہ تر عورتیں انفارمل سیکٹر یا غیر منظم شعبے میں کام کر رہی ہیں جہاں مزدور کے حقوق کی پامالی ایک معمول ہے اگرچہ عورتوں کی حقیقی اجرتوں میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی بدحالی اور افراط زر میں اضافہ ہے جو اس وقت 25فیصد تک پہنچ چکا ہے اس وقت تقریبا 75فیصد عورتیں زراعت اور متعلقہ شعبوں میں کام کر رہی ہیں دوسری طرف 12.2فیصد صنعتوں ،13.9فیصد خدمات کے شعبوں سے وابستہ صرف 22.9فیصد عورتیں اپنے کام کا معاوضہ حاصل کرپاتی ہیں جس میں سے 43.9فیصد پیس ریٹ پر جبکہ 12.9فیصد کو روزانہ کی بنیاد پر یعنی عارضی مزدور رکھا ہے آج عورتوں کی بڑی تعداد جو کہ تقریبا 2کروڑ سے زائدہے گھریلوں بنیادوں پر کام کر رہی ہیں جن کے کوئی مزدور حقوق نہیں ہے یہ عورتیں چوڑی ساز،قالین بانی ،ظروف سازی ،جفت سازی ،ہینڈی کرافٹس فیکٹریوں اور بوتیکو کے لئے بڑی صنعتوں کے پرزے جو ڑنے اور ٹیوب لائٹس بنانے تک کا کام کرتی ہیں تاہم ان کا معاوضہ جسم وجان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ناکافی ہے مزدور عورتوں کی اکثریت غذائی قلت اور مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ جیسے مسائل کا شکار ہیں ۔


حکومتی اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 55فیصد ہے جس میں 67فیصد مرد اور 42عور تیں خواند ہ ہیں جبکہ سب سے کم شرح بلوچستان میں ہے جوکہ 22فیصد ہے ہماری ناہموار معاشی اور سماجی ترقی کی جانب اشارہ کرتی ہے تاہم حکومت پاکستان کا دعویٰ تھا کہ 2015تک 80فیصد تک شرح خواندگی حاصل کر لے گی لیکن مجموعی پیداوار کا صرف 2فیصد تعلیم پر خرچ کرنے والی حکومت یہ ہدف کیسے حاصل کرے گی اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے بجٹ میں بھی حکومت نے کٹوتی کی ہے ۔اقوام متحدہ نے گو کہ اس ضمن میں بار بار تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی کو باوقار روزگار کی فراہمی کا ذریعہ قرار دیا ہے جو پاکستانی عورت کے لئے اتنا ہی سچ ہے جتنا دنیا کے کسی اور خطے کی عورت کے لئے تاہم امن ومان کا قیام اس مقصد کے حصول کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے سیاسی محاذ پر گوکہ عورتوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن میں مقامی حکومتوں میں عورتوں کی شمولیت جو کہ اب ایک طویل جدوجہد تھی جس کے بعد خواتین اسمبلیوں میں یکے بعد دیگرے عورتوں کے حقوق سے متعلق بل پیش کر رہی ہیں ان بل میں گھریلو تشدد اور ہوم بیسڈ ورکر کے حقوق کے بل پیش کئے جا چکے ہیں تاہم انہیں ابھی تک منظو ر نہیں کیا گیا ہے جبکہ کام کی جگہ پر جنسی تشدد کے خاتمے کے لئے کامیاب قانون سازی کی مزدور عورتوں کی تنظیم سازی کے حوالے سے بھی اہم پیش رفت ہو رہی ہے جس میں پبلک سیکٹر کی تنظیموں سے لیکر ہوم بیسڈ عورتوں کی تنظیم کاری تک شامل ہے خواتین چاہے پی آئی اے کی ہوں یا پیرا میڈیکل سٹاف ،اعلیٰ تعلیمی اداروں کے تدریسی اورغیر تدریسی سٹاف ،انجمن مزارعین پنجاب کی عورتوں کی جدوجہد یا پھر اینٹوں کی بھٹیوں پر کام کرنے والی عورتوں کے حقوق کی جنگ ،عورتیں ہر جگہ فعال ہی نظر آتی ہیں ۔تما م ہوم بیسڈ ورکرز عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم ہو اس ضمن میں پاکستان ہوم نیٹ پاکستان سرگرم عمل ہے ہوم نیٹ پاکستان چونکہ ایسے ادارو ں کے نیٹ ورک پر مشتمل ہے جو ہوم بیسڈ ورکرز (اپنے گھروں پر یومیہ اجرت یا پیس ریٹ پر کام کرنے والی خواتین )کے معاشی ،معاشرتیاورکام کے حالات سے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے ۔


پاکستان میں غیر رسمی معاشی سرگرمیوں کے شعبے کا 70فیصد ان خواتین ورکرز پر مشتمل ہے ہوم نیٹ پاکستان 2005سے ان ہوم بیسڈ ورکرز کو بحیثیت ورکرز تسلیم کروانے کے لئے جد وجہد کر رہا ہے کیونکہ ہوم نیٹ پاکستان ہوم بیسڈ ورکرز کو غریب ،نادار پسماندہ اور فلاحی تنظیموں سے ملنے والی امداد کی مستحق سمجھنے کی بجائے انہیں ہنر مند ورکر کی حیثیت سے دنیا میں جانا جائے اور ان کی پیداواری صلاحیتوں میں بہتری واضافے کے لئے مختلف ہنر حاصل کرنے میں تربیت ،جدید ٹیکنا لوجی سے آگاہی اور ان کا استعمال قرضہ فراہم کرنے والی سکیموں تک براہ راست رسائی کے ساتھ ان کی مصنوعات کی بہتر مارکیٹنگ پر توجہ کی خواہاں ہے جس میں ان ہوم بیسڈ ورکرز کا ملکی اندراج انتہائی ضروری ہے تاکہ انہیں لیبر قوانین میں بحیثیت ورکرز تسلیم کیا جائے اور انہیں معاشی ،معاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہو سکے چاہے وہ خواتین مزدور کے آئینی حقوق ہو یا انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ilo)کے ساتھ دستخط کردہ معاہدے خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کو ملکی اعدادوشمارمیں شامل کرنا ضروری ہے پاکستان نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے جبری مشقت کے خاتمے کے کنونشن 29،انجمن سازی اور منظم ہونے کے حق کے کنونشن 87،اجتماعی سوداکاری ومنظم ہونے کا حق کے کنونشن 98،کم از کم اجرت کے کنونشن 100،سماجی تحفظ کا کم سے کم معیار کے کنونشن 102،خواتین ورکرز کو زچگی کے دوران تحفظ کے کنونشن 103،روزگار کے حوالے سے امتیازی سلوک کی ممانعت کے کنونشن 111،کام کرنے کی کم سے کم عمر کے تعین کے کنونشن 138،بحالی پیشہ وارانہ اور ملازمت برائے معذور افرادکے کنونشن 159،ہوم بیسڈورکرز کے کنونشن 177،بچوں کی مشقت کی بدترین اقسام کے کنونشن 182،ڈومیسٹک ورکرز کے کنونشن 189،دستخط کر رکھے ہیں مگر ابھی تک ان معاہدوں پر عملی اقدامات صرف کا غذوں میں محفوظ ہے جنہیں نافذالعمل کی اشد ضرورت ہے۔


کسی بھی ملک کا آئین ایسے بنیادی اصولوں کا مجموعہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست اپنے شہریوں کے لئے ایک منصفانہ ،مہذب ،پرامن ،اور باوقار معاشرے کے تصورکو پورا کرنے کے لئے انتظامیہ ،عدلیہ اور سیاسی اداروں کے نظم ونسق کا ڈھانچہ متعین کرتی ہے پاکستان کا 1973کا آئین ایک جامع دستاویز ہے جس میں بنیادی حقوق کی ایک طویل فہرست ہے آئین کی280شقیں چونکہ بارہ حصو ں میں موجود ہیں آئین میں 2012تک بیس (20)ترامیم ہو چکی ہے البتہ پاکستان کے آئین میں تمام شہریوں کو یکساں بنیادی حقوق میسر ہے ان حقوق میں فکر وضمیر اور مذہب کی آزادی ،اظہاررائے کی آزادی ،نقل و حرکت کی آزادی ،اجتماع کی آزادی اور انجمن سازی کی آزادی شامل ہے ۔واضح رہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن (CEDAW)کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1979کو منظورکیا تھا اس کنونشن کا مقصد خواتین کے ساتھ سیاسی ،معاشی ،معاشرتی اور ثقافتی شعبوں میں امتیازی سلوک روا رکھنے کو روکنا اور صنفی بنیادوں پر ہر طرح کے تشددکا خاتمہ ہے ۔ہوم نیٹ پاکستان روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے ورکرز کے لئے ایک مربوط سوشل سیکیورٹی کا پلان بھی چاہتی ہے کیونکہ ہوم بیسڈ ورکرز کے پاس 5دن سے زائد کا ذخیرہ نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ جاتے ہیں اگر چہ یہ کام صرف صوبائی حکومتوں کاہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ہے اگر وفاقی حکومت ملک میں جامع سوشل سیکیورٹی کا نظام رائج کر ے اور ہوم بیسڈ ورکرز کو تسلیم کرے تو یقیناًمزدوروں کے دیرینہ مسائل حل ہو سکتے ہیں ان ہوم بیسڈ ورکرز کو کام کے مکمل ہونے اور ڈلیوری کرنے پر صرف 40فیصد رقم ملتی ہے جبکہ 47فیصد عورتوں کو کام مکمل ہونے کے باوجود بھی معاوضہ نہیں ملتا ہےلہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے اور ملک میں سوشل سکیورٹی کے نظام کو مضبوط کرے اور تمام صوبوں کو ہدایت کرے کہ وہ اسمبلیوں میں ہوم بیسڈ ورکرز کے بنیادی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ضروری ترجیحات کو فروغ اور ان مزدوروں کی مکمل رجسٹریشن بھی کر ے تاکہ ہوم بیسڈ ورکرز کو باقاعدہ ورکرز یعنی مزدور تسلیم کیا جا سکے ۔


جمعرات، 19 فروری، 2015

شہر قائد کو سمندری خطرات لاحق


دنیاکے ساتویں  بڑے ڈیلٹا پر باد شاہی کرنے والے آج غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار نے پر مجبور 

ماحولیات میں موجود زہریلی ہوائیں جذب کرکے آکسیجن فراہم کرنے والے تمر کے گھنے جنگلات ختم 


لاکھوں انسانوں کی زندگی کی حفاطت کی ضمانت کے طور پر سمندر میں موجود تمر کے جنگلات کو بااثر افراد اور سا حلی وڈیروں پر مشتمل مافیا نے تیزی سے کاٹ کر شہر کراچی اور انسانی زندگیوں کو داؤں پر لگا ر کھا ہے ۔اقوام متحدہ کے ادارے ما حولیات اور سمندری حیات نے دنیا بھر کے ممالک پر زوردیا ہے جس پر حکومت پاکستان نے عملدرآمد کروانے کے احکامات بھی جاری کر رکھے ہیں لیکن ساحلی مافیا ان تمام قوانین واحکامات کے برعکس بلا ضرورت ماحولیات کی تباہی کے لئے تمر کے جنگلات کا ٹ رہی ہے بلکہ سمندر میں مٹی کی بھرائی کرکے سمندر کنارے بستیا ں قائم کرنے کے ساتھ ان پر اپنا قبضہ بھی جما رہے ہیں جس پرکراچی کی 129کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ،ماحولیات، ماہی گیر وآبی حیات کے علاوہ کراچی کے لاکھوں لوگ غیر محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں ۔ساحل سمندر اور ماہی گیری صنعت پاکستان میں جہاں معیشت کو مضبوط کرتی ہے وہی ملک کی جغرافیائی اہمیت اور فطری حسن کو بھی دوبالا کرتا ہے ۔

آبی حیات و ماحولیات کے حوالے سے سمندر میں موجود تمر کے جنگلات کی موجودگی لاتعداد فوائد وحفاظت کو یقینی بنانے کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔تمر کے جنگلات صرف 73001ہیکٹرز پر موجود ہیں 1985میں یہ وسعت 228812ہیکٹر تھی مگر اس صورتحال نے مچھلی کے پیداواری ذائع پر بہت برے اثرات ڈالے ہیں اور ماحولیات کی یہ تباہی سمندری طوفان کو جنم دی رہی ہے کیونکہ سندھ کا سمندری کنارہ بحرہند کی سونامی لہروں کے دائرے میں آتا ہے ۔تباہیوں کے سلسلے کی ملکی تاریخ کا جائزہ لیں تو قیام پاکستان کے بعد 1964میں طوفان آیا، 1973میں بارشوں کے سیلاب نے تباہی مچائی ،1976میں دریائی سیلاب آیا ،1994میں د وبارہ برساتی سیلاب آیا ،1999میں A-2سمندری طوفان آیا ،2005میں قیامت خیز زلزلہ آیا ،2010میں فیٹ کے نام سے سمندری طوفان آیا اور 2010میں ہی خطرناک دریائی سیلاب بھی آیا ،جس میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی لیکن 1999کے بعد سمندری طوفانوں کے سلسلے کے طور پر 14سال مکمل ہو گئے ہیں اگرچہ پوری دنیا میں ماحولیات میں تبدیلیاں بڑی تیزی سے رونما ہورہی ہیں اور ان کے اثرات مختلف صورتوں ،سمندروں میں طغیانی کی صورت میں نظر آرہے ہیں ۔ان تباہیوں میں ہونے والے بہت زیادہ نقصان کی وجہ حکومتی اداروں کی بروقت امدادی کاروائیاں نہ کرنا تھیں ۔ہمارے بیوروں کریٹس اور منتخب نمائندے ماضی کی غلطیوں سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کرتے ہیں ہم یہاں 1999کے خطرناک طوفان کا آج بھی ذکر ہو توریاست اسے A-2کے نام سے شناخت کرتی ہے جبکہ طوفان میں نہ صرف لاتعداد لو گ ہلاک ہوئے بلکہ آج بھی ماہی گیری کے دوران کشتیوں کے الٹنے ،ٹوٹنے اور ڈوبنے سے ان گنت ماہی گیر گم ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ انڈیا کی جیلوں سے 14برسوں سے قید ماہی گیروں کے خطوط آج بھی مو صول ہو رہے ہیں جو اپنی حکومت اپنے منتخب نمائندوں اور ورثأ  سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ طوفان کے باعث ہندوستان کی سرحدوں میں داخل ہو گئے تھے جنہیں قید کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا ہے اور کوئی انہیں رہائی دلانے والانہیں ہے ایک اندازے کے مطابق گوٹھ عبدالرحمان دھاندل کے 63،گوٹھ الہہ رکھیو کے 20،گوٹھ بیک بھا ڈائی کے 16،گوٹھ راج ملک کے 7،گوٹھ نور محمد چالکو کے 23، گوٹھ عمر بوریو کے 7،گوٹھ قاسم تھیمور کے 7،گوٹھ بھرونگائی کے 8،سجن واری کے 6،ضلع بدین کے گوٹھ منیچھ وسایو ولاح کے 2،گوٹھ جمعہ ولاح کے 3،گوٹھ یوسف بھٹو کے 3،کڈھن کا ایک ،رینجرزکے گیارہ جوانوں سمیت 300سے زائد انسانی زندگیاں 19مئی 1999کے سمندری طوفان کے نذر ہو گئیں تھیں جبکہ ہزاروں گھر مسمار اور متعدد گوٹھ ویران ہوئے ،2ہزار سے زائد کشتیاں ڈوب گئیں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ ہوگئی اور ہزاروں مویشی مرنے کے ساتھ روڈ راستے اور سکولوں کی بلڈنگیں بھی تباہ ہوئیں ،اس وقت بھی موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف ہی تھے جنہوں نے بروقت متاثرین کی مدد کے لئے 55کروڑ روپے دینے گوٹھ عبدالرحمان دھاندل کو ماڈل ولیج بنانے اور زندگی کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا تھا ،وزیراعظم نوازشریف نے تین مرتبہ متاثرہ ساحلی پٹی کا دورہ کیا اس کے علاوہ پنجاب ،خیبرپختونخواہ ،بلوچستان کے وزیراعلیٰ ،وفاقی وصوبائی وزراء اور دیگر ممالک کے سفیروں و اہم شخصیات بھی متاثرہ ساحلی پٹی کا جائزہ لیا ،اور متعدد سیاسی وسماجی شخصیات سمیت ملک کی اہم شخصیات نے اشیأ  خوردنوش سے لیکر ضروریات زندگی وہ تمام چیزیں دی جن کی اس وقت ان متاثرین کو ضرورت تھی ،وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو ،کشتیاں ڈوبنے اور جن کی فصلیں تباہ ہوئی ان کے لئے الگ الگ معاوضے کا اعلان بھی کیا تھا اگر کسی گھر کا کفیل ہلاک ہونے والوں میں شامل تھا تو اس کے لواحقین کو ایک لاکھ روپے ،فی کشتی کے 10ہزار اور فی گھر 25ہزار روپے مقرر کئے گئے ،دکھ اگلتی سندھ کی یہ ساحلی پٹی 350کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے جہاں 12لاکھ سے زائد لوگ سمندر سے مچھلی کا شکار کرکے روزگار حا صل کر رہے ہیں ۔

سندھ کا ساحلی علاقہ بنیادی طورپر انڈس ڈیلٹا کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا میٹھا پانی سمندر میں داخل ہوتا تھا یہاں انڈس ڈیلٹا کا ذکر صرف اس لئے کیا جارہا ہے کہ انڈس ڈیلٹا ساحلی پٹی پر لاکھوں لوگوں کے علاوہ زراعت ماہی گیر ی اور ماحولیات پر مشتمل مکمل زندگی ہے۔دریائے سندھ کی17بڑی کریکس کے ذریعے میٹھا پانی سمندر میں داخل ہوکر روزگار کے نئے ذرائع مہیا کرتا تھااورماضی میں چونکہ یہاں بڑی بڑی بندرگاہیں موجود تھیں جہاں سے کاروبار ہوتا تھا ڈیلٹائی علاقوں کے چاول مکھن اور دستکاری کا سامان موجود تھا ۔دنیا کے ساتویں بڑے ڈیلٹا پر باد شاہی کرنے والے آج غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں ماضی کے قصوں کی بجائے اگر موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اعتبار ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح سندھ کی ساحلی پٹی کو تباہ کرنے کی سازش کامیاب ہوئی ۔کوٹری ڈاؤن میں پانی نہ چھوڑنے سے سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے 40لاکھ ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوچکی ہے اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے ڈیلٹائی اضلاع کے شمالی علاقوں کی زمین سیم تھور کے زیراثر آگئی ہے سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے تقریبا12لاکھ 20ہزار 360دیہہ ہیں جن سے 28دیہہ پر سمندرآگے بڑھ آیا ہے جبکہ 14دیہہ کو سمندر نے بری طرح متاثر کیا ہے کیٹی بندر وہ دریائی بندر تھا جہاں بیوپاری انڈونیشیا ء ،ملائیشیاء ،کیرالہ اور چین سے بیوپارکرتے تھے اس وقت جن علاقوں پرسمندر آگے بڑھ آیاہے وہاں لال چاول کی فصل ہوتی تھی جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتی تھی اب وہاں چاول کی فصل صرف 54ایکڑ پرکاشت ہوتی ہے تعلقہ کھاروں چھان میں 235,485ہیکٹرز پر مشتمل 42دیہہ تھیں ۔سمندر نے وہا ں کے20,426ہیکٹرز کو تباہ کردیا ہے اب یہ زمین نہ فصل اگاتی ہے اور نہ ہی دوسرے کسی استعمال میں آسکتی ہے اس طرح تعلقہ گھوڑا بازی میں 231,980ایکڑ ز کی61دیہہ تھیں جن سے 14دیہہ سمندر نے برباد کردی ہیں ساتھ ہی 38,587ایکڑ ز زمین سمندر نگل گیا ہے ۔کھاروچھان کا علاقہ جس کو لال چاولوں کا مرکز کہا جاتا تھا وہاں اب ایک ایکڑ بھی فصل نہیں اگتی ۔کیونکہ دریائے سندھ کی کریکس میں میٹھا پانی آنا بند ہوگیا ہے کھاروچھان کے مغرب میں کیلے ،پپیتے اور زیتون کے باغات ہوتے تھے جو اچھی آمدنی کا ذریعہ تھے اب وہ باغات والی زمین دلدل میں تبدیل ہو گئی ہے انڈس ڈیلٹا میں ماحولیاتی تباہی کے بعد جو سب سے بڑاانسانی المیہ پیدا ہوا وہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آیا ان علاقوں میں کچھ ایسے مشہور دیہات بھی ہیں جو اب ویران ہوگئے ہیں ڈیلٹا میں حالات رہنے کے لائق نہ ہونے کی وجہ سے لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں جن میں کراچی ،حیدرآباد ،بدین اور ٹھٹھہ شامل ہے نقل مکانی کے علاوہ ڈیلٹا کے لوگ روزگار کے لئے اپنا پیشہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،زراعت مال مویشی اور مچھلی پکڑنے والے لوگ نئے نئے پیشے اختیار کرتے ہیں جن میں ان کی کامیابی کی ضمانت کم ہوجاتی ہے ۔مال مویشی کا چارہ ختم ہونے کی وجہ سے لوگ مویشی فر وخت کرنے لگے ہیں متعدد لوگوں کا گزر بسر اب تمر اور جنگلی کیکر کو کاٹ کر انہیں بیچ کر ہوتا ہے جو گیلی 150اور سوکھی 250میں فروخت ہوتی ہیں ڈیلٹا میں جو پہلے خوشحال زمیندار تھے اب وہ تباہ ہوگئے ہیں اس تباہی کی وجہ سے یاتو وہ نقل مکانی کرکے کسی اور پیشہ سے وابستہ ہوگئے ہیں یا پھر ماہی گیری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اعدادوشمار بتاتے ہے کہ ڈیلٹائی عوام کی نقل مکانی کی تعداد 35سے40فیصد ہے ستم یہ کہ لوگوں کے پاس پینے کا پانی تک میسر نہیں ان کے بچے تعلیم جیسے قیمتی زیور سے بھی آراستہ نہیں ہو رہے ہیں اور ان کی صحت کے لئے ہسپتال ومطلوبہ علاج کی سہولت تک میسر نہیں ہیں ۔دوسری جانب حکمرانوں کی بے حسی عدم دلچسپی اور خاموشی کی وجہ سے لالچی اور مفاد پرست لوگوں نے سمندر میں موجود تمر کے جنگلات کی کٹائی کرکے سمندری لہروں ہواؤں اور طوفانوں کو روکنے والے تمر کے جنگلات کی دیوار گرادی ہے اس لئے نئے خطرات بغیر کسی روک تھام کے لوگوں ،گھروں و دیگر وسائل کو تباہ کررہے ہیں پاکستان قائم ہونے پہلے اب تک طوفانوں ،زلزلے ،بارشیں ،سیلاب اور تباہیاں آئی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے اگرچہ یہ بات واضح ہو ہوگئی ہے کہ ہردس سال کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ سندھ کی ساحلی پٹی تباہی کی زد میں آتی رہی ہیں ۔ساحلی رہائش پذیر زیادہ تر ماہی گیر ،مال مویشی چرانے والے اور زرعی آبادگار ہیں ۔زراعت پر دارومدار رکھنے والی آبادی اس وقت تمر کے جنگلات کی طرف رخ رکھتی ہے جب بارشوں کے موسم میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور آبادی کے لائق زمینیں زیرآب آجاتی ہیں اس لئے اس عرصے کے دوران تمر کی عمارتی لکڑی اور جلنے والی لکڑیوں کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے دباؤبڑھ جاتا ہے ۔ماہی گیر اکثر اکتوبر سے مئی تک مصروف رہتے ہیں کیونکہ اس دوران اپنے خاندانوں اور دیہاتوں کو چھوڑ کر مچھلی اور جھینگوں کے شکار کے لئے ساحلی کریکس کے آس پاس میں عارضی جگہوں پر رہتے ہیں ۔بنگالی اور برمیوں کی خالی کی ہوئی کتنی جھونپڑیاں ان علاقوں میں موجود ہیں جن کو مچھلی کے شکار کی موزوں جگہ سمجھی جاتی ہے مچھلی کا شکار کرنے والے لوگوں کو اویسنیا قسم کے تمر کے درخت3میٹر لمبی لکڑی بھی چاہئے ہوتی ہے جن سے وہ اپنے جال باندھ کر چھوٹی کریکس سے وہ مچھلی شکار کر سکیں البتہ ایسی لکڑیوں کی طلب اب کم ہوگئی ہے جب سے ٹرالرزآئے ہیں اور کشتیوں میں ڈیزل انجن لگ گئے ہیں پیشہ ور مال مویشی رکھنے والے ڈیلٹا کے لوگوں کے پاس ساحلی جزیروں پر رہنے کے لئے اونٹ ہوتے ہیں جن کے چاروں طرف کریکس ہیں کیونکہ لہرآنے کے دوران اونٹ پانی میں تیر سکتا ہے عام طورپر اونت پالنے کی جگہ ویسے تو سارا سال ہی ہوتی ہے پر سیلاب وبارشوں کا موسم ختم ہوتے ہی انہیں اندرونی علاقوں کی لے جایا جاتا ہے اگرچہ سیلاب کم ہونے سے یہ سلسلہ کم ہوگیا ہے ساحل سمندر کے دیہاتی اب اپنا مال مویشی آسانی کی جگہوں پر چراتے ہیں جہاں مویشیوں کا چارہ تمر کا اویسنیا کی جنس ہوتا ہے ساحلی دیہاتوں کی انسانی آبادی تمر کے درختوں کو بہت زیادہ استعمال میں لاتی ہیں تمر کے درخت روایتی طور پر عمارتی لکڑی مویشیوں کے چارے اور جلانے کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے غریب آبادی کے غریب اکثر گھروں کی تعمیر کے لئے اویسنیا میرینا تمر کی جنس استعمال کرتے ہیں لیکن تمر کی لکڑی کا زیادہ استعمال جلانے کے طور پر کیا جاتا ہے۔تمر کی لکڑی جلانے کا سستا اور آسان ذریعہ ہے البتہ جہاں گیس ہے وہاں تمر سے جلانے والا دباؤکم ہوگیا ہے ما ضی میں تمر کے درخت اتنے کمزوراورٹیڑے میڑے وتباہ حال نہیں ہوتے تھے جیسے اب نظرآتے ہیں ۔تمر کی موجودہ حالت ان کے استعمال والے نمونے اور میٹھے پانی کی کمی کی وجہ سے ہوئی تقریبا پانچ سوسال پہلے دریائے سندھ شاہ بندر کے پاس سے سمندر میں شامل ہوتا تھا تب وہاں تمر کے جنگلات لمبے اور گھنے ہوتے تھے اس زمانے میں بیو پاری کشتیاں جو درمیانی مشرقی ممالک اور ایشیاء کے بیچ پر لمبے سفر کے لئے آتے تھے ا س وقت پاکستان میں کوئی بھی تمر کا مصرف یا استعمال نہیں تھا کیونکہ نمک کو تیار کئے جانے کی وجہ سے وہاں تمر کے درخت تباہ ہورہے تھے۔کراچی کے ساحلی علاقوں ککا ولیج ،کیماڑی ،ابراہیم حیدری ریڑھی گوٹھ ،کیٹی بندر کھاروچھان ،جاتی اور شاہ بندر کے علاقوں میں بااثرافراد نے منظم طریقے سے سمندر کے کناروں پر بھرائی کرکے قبضے کر لئے ہیں اور اس پر ااواز اٹھانے والے کئی ماہی گیر لینڈ مافیا کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں جبکہ قاتل آزاد دندناتے پھر رہے ہیں پوری ساحلی پٹی پر قابض وڈیرے بڑی ہی تیزی کے ساتھ تمر کے درختوں کی کٹائی کرکے ٹرکوں اور گدھا گاڑیوں کے ذریعے مارکیٹوں اور کارخانوں میں فروخت کر رہے ہیں تمر کے جنگلا ت کو مقامی بااثرافراد غیر قانونی طور پر لاکھوں روپے میں ٹھیکے پر دیتے ہیں جو 200روپے دیہاڑی پر مزدور رکھ کر کٹائی کرواتے ہیں یہ مافیا تمر کے جنگلات کی کٹائی اندر سے کرواتے ہیں تاکہ کٹائی ظاہر نہ ہو سکے اور وہ ظاہر نہ ہو سکیں اس ضمن میں کٹائی کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم کوئی ٹھیکیدار یا وڈیرے نہیں بلکہ مزدور ہیں ہم ان ٹھیکیداروں کو صرف تمر کی لکڑیاں کاٹ کر دیتے ہیں جنہیں بعد میں سمندری کناروں پر کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے۔تمر کی لکڑی کا ایک ٹرک 800اور گدھا گاڑی والا 200روپے کرایہ وصول کرتا ہے جبکہ ٹھیکیدار1000روپے من کے حساب سے فروخت کرکے لاکھوں روپے کماتے ہیں تمر کی کٹائی میں اندھی کمائی دیکھ کر کراچی سے کیٹی بندر تک لالچی اور مفاد پرست افراد اس میں لگ گئے ہیں جس کے باعث تمر کے جنگلات سمندر سے بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں اور سمندر کے کناروں پرماہی گیروں کی آبادیاں غیر محفوظ ہو رہی ہیں تمر کے جنگلات ماحولیات ،انسانی اور آبی حیات کے زندہ رہنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تمر کے جنگلات ماحولیات میں موجود زہریلی ہوائیں جزب کرکے آکسیجن فراہم کرتے ہیں جڑوں میں جھینگے کی افزائش اورحفاظت کرتے ہیں تمر کے گھنے جنگلات تیز ہواؤں اور سمندری لہروں کو روک کر انسانی آبادی کو طوفانوں کی تباہی سے روکتے ہیں اگر جنگلات ختم ہوگئے تو سب سے بڑا نقصان کراچی شہر کو ہوگا اور سونامی جیسے طوفانوں کو روکنے کے لئے کوئی فطری چیز نہیں ہوگی ۔محکمہ جنگلات کے چھوٹے افسران کی رشوت اور بھتہ خوری نے تمر کی کٹائی کو تحفظ فراہم کر رکھا ہے جس پرمحکمہ ماحولیات خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جبکہ سمندری کناروں کے قریب تمر کے جنگلات کو کاٹ کر مٹی کی بھرائی کرکے سمندر کو زمین میں تبدیل کرکے قبضے کئے جارہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی قانونی ادارے اس عمل کو روکنے میں لاچار ہے اگرچہ تمر کے جنگلات ڈیڑھ سو برس پہلے انڈس ڈیلٹا کی مناسبت سے 6لاکھ ہیکٹرز پر تمر کے قد آور درخت کراچی سے سی کریک تک تھے اب کراچی میں ساڑھے چار لاکھ کی جگہ 58ہزار درخت رہ گئے ہیں چونکہ ایک ہیکٹر میں 2.5ایکڑ ہوتے ہیں دریائے سندھ کا پانی انڈس ڈیلٹا میں پھینکنے سے تمر کے چھوٹے پودوں کو غذا ملتی تھی 1892میں ایک سو پچاس ملین ایکڑ فیٹ پانی دریائے سندھ کا پانی بحرہ عرب میں گرتا تھا کیونکہ اس خطے میں دریا اور پانی تھا لیکن بڑی تیزی کے ساتھ ان کی کٹائی کے باعث اب ایک لاکھ چھیاسی ہزرا ہیکٹرز پر تمر کے جنگلات سمندر کے ساحلی علاقوں پر رہ گئے ہیں عمو ما رہ جانے والے درخت تناور وقد آور کی جگہ چھوٹے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ تمر کا ایک پودا ہی ایک سپاہی کی حثیت رکھتا ہے یہ ہمارے لئے خدا کی نعمت ہے کہ باقی بچے درخت کھارے پانی میں موجود ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی دارے، ماحولیات کیلئے کام کرنے والی این جی اوز اورکراچی کے ؂مقامی افراد تمر کے جنگلات کے تحفظ وافزائش کے لئے عملی مگر موثر اقدامات اٹھائیں تمر کی کٹائی اور سمندر میں مٹی کی بھرائی کر کے قبضہ کر نے افرابااثرد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے کیونکہ یہی موثراقدام سیلاب سے بچاؤ،ماحولیات کی بقاء،تمرکے جنگلات کے تحفظ اور لینڈمافیاسے بچاؤکی ضمانت ہوسکتے ہیں۔

جمعہ، 6 فروری، 2015

سندھ میں موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کے تحفظ کے حوالے سے مربوط پالیسی کی کمی ہے

ما حولیاتی کارکردگی انڈکس دوہزار دو کے مطابق پاکستان معاشی ممالک میں ایک سو بیس نمبر پر ۔  

سندھ کا   زرخیز صوبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین  پر آباد ہونے کے باوجود پاکستان شدید غذائی قلت کا شکار کیوں  ؟ 

گر حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے تو یقینا ًبڑھتی ہوئی قلت پر قابوپانے کے لئے اقدامات کو فروغ مل سکتا ہے۔


عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ ،اقتصادی ،سماجی ،اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوا می عہد نامے کے جنرل کمنٹ بارہ اور آرٹیکل گیارہ اعشاریہ ایک ،گیارہ اعشاریہ دو اور آئین پاکستان کے آرٹیکل اڑتیس اعشاریہ ڈی کے  تحت شہریوں کے حق برائے خوراک کو تسلیم کیا گیا ہےاس ضمن میں  حکومت پاکستان کے ڈولپمنٹ وژن بیس سو پچیس اور نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی ڈرافٹ میں بھی شہریوں کے لئے خوراک کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے مگر دنیا میں ایک ارب سے زائد انسانی آبادی آج بھی خوراک کے حق سے  محروم اور دو ارب سے زائد انسان غذائی قلت کا شکار ہیں یہی صورتحال پاکستان میں  بھی ہے یعنی ملک میں بیالیس فیصد افراد کو صرف خوراک میسر ہے جبکہ اٹھاون فیصد افراد آج بھی پاکستان میں خوراک کے حق سے محروم ہیں اگرچہ سندھ ایک کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پر  آباد   ہونے کے باوجودپاکستان کا یہ زرخیز صوبہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے جس کی زندہ مثال تھر پارکر میں معصوم بچوں کی بے حساب اموات ہیں۔  یہ اموات دوران زچگی ماؤں کو مناسب غذا نہ ملنے کے باعث پیدا ہونے والے نومولود کی ہورہی ہیں۔ یعنی سندھ میں اکہتر فیصد لوگ جو سندھ کی ساحلی پٹی اور دیہی علاقوں میں رہتے ہیں غذاکی کمی کے شدید بحران میں مبتلا ہیں ان خیالات کا اظہار مقررین نے پاکستان فشرفوک فورم کے تحت منعقدہ سیمینار بعنوان تحفظ خوراک وموسمیاتی تبدیلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا .

اس موقع پرپاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرکریم احمد خواجہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خوراک کا تحفظ ہر شہری کا حق ہے اور حکومت کی پہلی ذمی داری ہے کہ وہ ہر شہری کو خوراک فراہم کرے اس بابت وفاقی سطح پر  پی  پی اور ن لیگ کی مشترکہ کاوشوں سے تحفظ خوراک کے حوالے سے اہم پیش رفت ہورہی ہے ۔سیمینار سے آئی یو سی این کے طاہر قریشی نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندر نئی نسل کے لئے خوراک کا ذریعہ ہے مگر آئل ،انڈسٹری ،تھرمل ودیگر ذرائع سے سمندر میں آلودگی پھیلائی جا رہی ہے اسی لئے کوسٹل ایریاز ختم ہو رہے ہیں سمندری اطراف کے قرب میں رہائش پذیر افراد کو آگاہی کے لئے ریسرچرزاور انسٹیٹیوٹ کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ وہ عوام آگاہی پھیلا سکیں انہوں نے کہا کہ تیمر کے جنگلات کو بڑی تیزی کے ساتھ کا ٹا جا رہا ہے جس سے فشریز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے باہر کے لوگ تیمر کے جنگلات کو کاٹ کر مہنگے داموں لکڑیاں فروخت کرتے ہیں جبکہ پاکستان ریسرچ کونسل کے کامران بخش نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں سے پانی کا ڈرافٹ موجود ہے اگر دیہی علاقوں میں پانی ہوگا تو ہم تحفظ خوراک کی بات کریں لوگ تیزی کے ساتھ شہری آبادیوں کا رخ کررہے ہیں  دیہات سے شہر کی جانب تیس فیصد لوگ منتقل ہو چکے ہیں اسی لئے پاکستان کلائمنٹ چینج کے حوالے سے دنیا میں ایک بڑا خطرہ ہے ۔سیمینار سے پاکستان فشرفوک فورم کے چئیرمین   محمد علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سماجی نا انصافی کی وجہ سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اسی لئے دو بلین لوگ نیوٹریشن ،کیلوری سے محروم ہیں کلائمنٹ چینج کے باعث سب سے زیادہ اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں ۔آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور خوراک میں کمی کا سلسلہ بتدریج جاری ہے دوہزار پچاس تک آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا لیکن ہمارے ملک میں فشریز سیکٹر کو بچانے کے لئے کو ئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ہو رہے ہیں حالانکہ فشریز سیکٹر ،خوراک کے تحفظ ،زراعت میں ہونے والی تباہیوں سے بچانے کے لئے ہنگا می بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہےہمارا ملک زرعی ملک ہے ایٹمی تابکاری کی جگہ ہمیں مثبت ایگریکلچر کی اشد ضرورت درپیش ہے تاکہ انسان کی خوشحالی کی بات ہو سکے کیونکہ ہمارے ملک میں خوراک کا جو مسئلہ ہے یقینا ًدنیا بھر میں ہے۔  سندھ کے اسی فیصد لوگ جن کا تعلق دیہی علاقوں سے  ہے انہیں پانی کاشت کے لئے میسر نہیں جس کے باعث وہ کاشت کاری نہیں کر رہے ہیں اور یوں خوراک کی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کی قلت ہو رہی ہے گر حکومت اس ضمن میں اپنا بنیادی کردار ادا کرے تو یقینا ً بڑھتی قلت پر قابوپانے کے لئے اقدامات کو فروغ مل سکتا ہے اگرچہ دیگر مقررین نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ماحولیا تی تبدیلی کے بڑے جامع خطرات بہت بڑے اور گہرے ہیں اگر گرین ہاوس گیسز کے اخراج کی موجودہ رفتار اسی طرح برقرار رہی تو ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں تک بھوک وافلاس کو کم کرنے کے لئے کی جانے والی تمام کو ششیں رائیگاں جائیں گی ۔تاہم اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے بعض ممالک بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں کمی واقع نہ ہوئی تو عالمی سطح پر یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا یعنی پناہ گزینوں کا مسئلہ ،لکڑی کی قلت ،بڑے شہر اور جزائر پر سیلاب کا آنا ،فصلوں  اور پودوں کا  سڑنا و جانوروں کا تیزی کے ساتھ مرنا ،آب وہوا کا اس تیزی کے ساتھ گرم چلنا کہ کام کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑے انہی گیسز کا مسلسل اخراج ماحولیا تی تبدیلی والے نظام کو بڑے ہی لمبے عرصے تک شدید متاثر اور ناقابل واپسی تبدیلیوں کا سبب بنے گا جو انسانی معاشرے پر بہت اثر انداز ہو گا ۔مقررین نے کہا کہ جرمنی کی غیر سرکاری تنظیم جرمن واچ کی تبدیلیوں کے حوالے سے سالانہ رپورٹ گلوبل کلائمنٹ رسک انڈکس میں پاکستان کلائمنٹ چینج کے خطرناک اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ان تین ممالک میں تاحال دوہزاردس سے شامل ہے  جبکہ تھنک ٹینک چینج  امپکٹ سٹڈیز سینٹر کی ایک رپورٹ میں پاکستان دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی اوسط شرح میں دوگنا مبتلا ہے ما حولیاتی کارکردگی انڈکس دوہزار دو کے مطابق پاکستان معاشی ممالک میں ایک سو بیس نمبر پر ہے اسی طرح صورتحال موسمیاتی تبدیلی کی  سنگین شکل اختیار ہو رہی ہے اس وقت مجموعی  طور پر سندھ  موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے دوچار ہے اور ساتھ ہی بہت بڑے خطرے کا سامنا  ہے کیونکہ دنیا کے بعض ممالک  کی طرح پاکستان کے سمندری علاقوں میں بھی سمندر کی سطح میں اضافے کے شواہد موجود ہیں ۔مقر رین نے مزید کہا کہ سندھ میں موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کے تحفظ کے حوالے سے مربوط پالیسی کی کمی ہے تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کا تحفظ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے تاہم صوبے میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ خوراک کے تحفظ کی پالیسی ایف اے او کے بتائے ہوئے اصول ہر انسان کو ہمہ وقت مناسب ،محفوظ اور غذائیت سے بھر پور خوراک تک رسائی ہونی چاہئے جس سے وہ ایک متحرک اور  صحتمند زندگی گزار سکے  مزید براں خوراک کے تحفظ کو لازم بنانے کے لئے پالیسیوں کو بہتر کیا جائے تاکہ غریب خاندانوں کی  سماجی تحفظ کے ساتھ ساتھ   قوت خرید میں بھی اضافہ ہوسکے اور وہ اپنے لئے خوراک خرید سکیں ممکنہ معاشی اضافہ کے ساتھ متحرک مارکیٹوں میں یکساں روزگار کے مواقع مہیا کئے جائے تاکہ موثر اور زیادہ مثبت ترقی کو تیز کیا جاسکے۔

اس موقع پرپاکستان مسلم لیگ (ن)کی سورتھ تھیبو ،پاکستان فشرفوک فورم کے جنرل سیکرٹری سعید بلوچ ،جمیل جونیجو ،سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام کے پروفیسر اسماعیل کمبھر،پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے کامران بخش ،ایکشن ایڈسندھ کے شاہجہان بلوچ ،سندھ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرجنرل ریاض احمد ابڑو،سندھ فشریز اینڈ لائیو سٹاک کے ڈائریکٹرجنرل غلام محمد ،محکمہ خوراک سندھ کے سیکرٹری سعید اعوان ،محکمہ داخلہ کے چیف سیکرٹری عبدلرحیم سومرو،سنئیر وائس چئیرمین پاکستان فشرفوک فورم فاطمہ مجید ،آئی یو سی این کے طاہر قریشی ،لا ٗڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل سیکرٹری اسلم شیخ سمیت سول سوسائٹی وصحافی بھی موجود تھے۔ 

جمعہ، 30 جنوری، 2015

اسلام میں عورت کے حقوق کا تحفظ

نسل انسانی کے ارتقاء اور فروغ کے لئے رب کائنات نے مردوزن کا وجود پیدا کیااور ان دونوں کے وجود کے باہمی ملاپ سے انسانی نسل کا ارتقاء عمل میں آیا۔شادی اس ملاپ کانام ہے جوصدیوں سے انسان مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں اپنی اپنی رسوم کے مطابق کرتے ہیں اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا جبکہ نکاح وہ معاہدہ ہے جس کی رو سے عورت اور مردایجاب وقبول کامل اپنی مرضی اور رضا مندی سے باہمی طور پر طے کرکے اس کا اعلان کرتے ہیں۔چونکہ نکاح کا عمل صدیوں سے رائج ہے اسی لئے اسلام میں عورت کے حقوق کا تحفظ اور نکاح کے موقع پر عورت کو اہمیت دی گئی ہے کہ عورت نکاح میں اپنی مرضی کا ظہار کردے تو نکاح نہیں ہو سکتا ہے ۔



مرد کی جانب سے ایجاب اور عورت کے قبول کرنے کے عمل کو نکاح کہتے ہیں نکاح عورت کے حقوق کوتحفظ دینے اور اسے یقینی بنانے کا نام ہے نکاح نامہ عملی طور ایک مقدس دستاویزات سمجھا جاتا ہے جس کو بوقت نکاح مولوی صاحب کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو کہ اپنی آسانی اور لوگوں کی کم فہمی کے پیش نظر ہمیشہ اسے ادھورا چھوڑ کر اپنا فرض نبھاتا ہے جو کہ سرا سر غلط اور قوانین کے حقوق کے تابع باقاعدہ طور پر نکاح نامہ کے فارم ان کی رجسٹریشن اور ان پر عملدرآمد کے لئے قوانین بھی مرتب کئے گئے ہیں جس میں سر فہرست حق مہر ہے جوکہ ایک بنیادی حق بھی ہے نکاح نامہ قطعا کوئی مقدس دستاویز نہیں ہے مگر نکاح نامہ کی شرائط عائلی قوانین کے طے شدہ ہیں جن میں ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ ایک سماجی معاہدہ ہے اس لئے نکاح نامہ کی مہر شق کو اختیار کے ساتھ تحریر کرنا انتہائی ضروری ہے مگر ہم بوقت نکاح نامہ اس اہم نکتہ فراموش کردیتے ہیں اور بہت سی اہم شقوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں تو تب اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے ایک وقت تھا کہ طلاق ایک متروک لفظ تھا مرد بھی طلاق کا لفظ زبان پر لانے سے ہچکچاتے تھے لیکن خاندانوں کے درمیان مضبوط سماجی روابط اور اخلاقی روایات کے پیش نظر مشکل ترین حالات میں بھی میاں بیوی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے تھے مگر آج تیزی سے روایات ،خاندانوں کی تقسیم درتقسیم مسابقت کی دوڑبیجا آزادی میڈیا کی اثر اندازی اور خصوصا مردوزن کے مطابق باہمی اختلاف توقعات کی بسیاری نے حالات کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے لیکن آج طلاق کی شرح تین طلاق یومیہ سے بڑھ رہی ہے خدشہ ہے کہ پاکستان طلاق کی شرح میں کہیں دیگر ممالک کی طرح آگے بڑھ جائے آج بھی 40%خواتین اپنی تمام ترآزادی اور خودمختاری کے باوجود نکاح کے وقت مشرقی خواتین اپنے نکاح کی شرائط خودطے نہیں کرسکتی ہیں اس ضمن میں آہنگ نے سال 2012میں ایک کمیونٹی لیول پر سروے بھی کیا گیا جس میں پہلے حیدرآباد کے صرف چاروں تعلقہ لطیف آباد ،حیدرآباد سٹی ،قاسم آباد کے ایک ہزار لوگوں سے دریافت بھی کیا گیا جس میں 62%عورتوں نے بتایا کہ انہیں پتہ نہیں کہ طلاق دینے کا حق حاصل ہے یا نہیں ہے 90%لوگوں نے دوسری شادی کے متعلق آگاہی سے محروم ہیں لیکن صرف 8%لڑکیوں نے اظہار نالج کی بات کی جبکہ آج بھی 65%لڑکیوں کی شادی 16برس سے قبل ہی کردی جاتی ہے جس میں ان لڑکیوں سے اجازت تک نہیں مانگی جاتی ہے جو 1961کے مسلم فیملی ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے جبکہ لڑکیوں کی سیصلہ سازی کی قوت اور تعلیم تک رسائی عملی طور پر ممکن نہیں رہتی ہے مذکورہ معاملات پر سیر حاصل بحث کو فروغ دے کر صوبائی اسمبلی کے ممبران فیصلہ ساز شخصیات اور سرکاری افسران نے ضلعی وصوبائی سطح پر(کم عمری کی شادی پرپابندی کے بل 2013)کو سندھ اسمبلی سے پاس کرنے کی راہ ہموار کی اس بل میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کم از کم 18برس تجویز کی گئی ہے پاس ہونے والے بل سے تبدیلی کی امید ہے



 لیکن شادی کے وقت لڑکی کی عمر اٹھارہ برس ہے اس کی مکمل تصدیق ہونی چاہیے کمسنی کی شادیوں میں لڑکیوں کو ان کے حقوق سے محروم اور شرائط کا خانہ خالی رکھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے نکاح نامہ کے پیرا نمبر 16,17,18,اہم شرائط ہیں مگریہ اہم شرائط کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے نظر انداز کردی جاتی ہیں حالانکہ نکاح نامہ میں واضح طور پر جب یہ تحریر ہے کہ کوئی اور شرائط تو اس کے تحت خواتین کا ماہوار جیب خرچ بصورت ناچاقی ان کے خرچہ ونان نقطہ اور بچوں کی پرورش کی بابت حفظ ماتقدم کے طور پر تمام شرائط آپس میں طے کر کے تحریر کی جاسکتی ہیں اس لئے اس اہم پیرے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس کے علاوہ بھی جو شرائط قانونی وجائز ہوں وہ اس پیرے میں درج کی جاسکتی ہیں دوسرا اہم پیرا نمبر جس میں عورت کو طلاق کا حق تفویض کیا گیا یانہیں لکھا گیا ہے اس پیرا کی اہمیت اس لئے بھی ہے مردجب عورت کو طلاق دیتا ہے تو چند سیکنڈ میں اپنی زوجیت سے آزاد کردیتا ہے اور کھڑے کھڑے اس کو اپنے گھر سے نکال دیتا ہے یا قانونی طور پر صرف پندرہ روپے کے اسٹامپ پیپر پر طلاق نامہ تحریر کرکے عورت کو تھما کر اسکو آزاد کردیتا ہے مگر جب عورت نا مساعد حالات میں آزادی چاہتی ہے تو اس کو ہزار قسم کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہےعدالتوں میں مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے گواہ پیش کرنے پڑتے ہیں انتہائی فضول قسم کی الزام تراشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے شہادتوں اور بحثوں کے طویل عمل کے بعد ریزہ ریزہ ہو کر کہیں طلاق کی اہل قرار پاتی ہے جس کےلئے اس کو اپنے کئی  حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور مرد کی جانب سے دئے گئے تحائف وغیرہ واپس کرنے پڑتے ہیں جبکہ اس دوران اس کے ساتھ اس کا پورا خاندان کربناک اذیت کا شکار رہتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ عورت کا یہ قانونی اور جائز حق دیا جائے کہ وہ بھی اگر چاہے تو مرد کو طلاق دےسکے عورت چونکہ کم فہم ہوتی ہے اور جذبات میں آکر اس حق کو غلط استعمال کرسکتی ہے لیکن جب خوشی وخرم ازدواجی زندگی گزار رہی ہوتو چند واقعات کو چھوڑ کر کوئی بھی عورت ایسی سوچ کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اپنے خوش وکرم گھر کو مسمار کردے کیونکہ طلاق ہمیشہ ناگزیر صورت میں ہی ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا حق حاصل ہونے کے باوجود وہ یہ حق استعمال میں کوئی تامل نہیں کرتے اس لئے عورت کو طلاق کا حق تفویض کرتے وقت یہ شرائط عائد کی جاسکتی ہے کہ عورت طلاق کاحق صرف اس وقت اتعمال کرسکتی ہے جب اسکے والدین یا والدین کی عدم موجودگی مین بہن بھائیوں میں سے کم از کم دوافراد کی رضا مندی حاصل ہوتاکہ یہ فرد واحد کا جذباتی فیصلہ نہ ہو اس حق کو تفویض کرنے کے بعد پھر عورت بھی اس طرح اپنے حق کو استعمال کر سکتی ہے شادی جو کہ دو افراد کے درمیان ازدواجی بندھن ہونے کے باوجود کچے دھاگے کی مانند ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے اس لئے احتیاطی تدابیر کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے کیونکہ بعض خواتین کو گھریلو اازادی جب ملتی ہے تو وہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں جس کی وجہ سے گھریلو خواتین کو بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی ہے جس سے گھریلو لڑکیوں میں سخت مایوسی اور وہ ڈری سہمی ہوئی سی رہتی ہیں ایسی گھریلو خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی ٖضرورت ہے آج شہر کی عورتوں نے کافی مضبوط قدم جما رکھا ہے لیکن دیہاتوں میں رہنے والی خواتین بھی کم نہیں ہیں پچھلے دس برسوں میں خواتین نے گھروں سے باہر قدم رکھا اور آج مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں اور مختلف شعبوں کے اندر ترقی کے زینے طے کر رہی ہیں اگر والدین اپنے بچوں پر اعتماد کریں تو ان کی ہچکچاہٹ ،مایوسی ختم ہو اور وہ بھی دوسروں کی طرح آگے بڑھ سکیں ۔

جمعہ، 9 جنوری، 2015

کیا دس برسوں میں مزدور کی قسمت بدلے گی

پاکستان میں جی ایس پی پلس سکیم اور مزدور۔۔۔۔۔۔!


سرمایہ داروں کی چاندی مگر مزدور کی صحت اور سماجی تحفظ تک رسائی ممکن نہیں ۔۔؟


پاکستان کو جنو ری 2014 میں یورپی یونین کی جانب سے یونین میں شامل ملکوں کو دس برسوں کے لئے بلا ٹیکس ٹیکسٹا ئل و گارمنٹس کی برآمدگی کے لئے جی ایس پی پلس کا درجہ ملے ایک برس بیت گیا اس دوران صنعت کاروں کو اپنی برآمدی مصنوعات میں ڈیوٹی کی چھت ملنے سے خاصا منافع بھی ہوا ہے اور اس ضمن میں حکومت کو زر مبادلہ میں خاصی آمدنی بھی ہوئی لیکن معیشت اور محنت کی مثلث کے تیسرے فریق یعنی مزدور کے حالات پر کوئی واضح اثر نہیں ہوا ہے۔


 دسمبر 2013میں جب یورپی یونین نے پاکستان کے لئے جی ایس پی پلس اسکیم کی منظوری کا اعلان کیا تو حکومت و سرمایہ داروں کی طرف سے جاری بیانات میں کہا گیا کہ یورپی یونین نے پاکستان کو ان 27عالمی کنوینشنز کی پابندی کی مد میں تسلیم کر لیا ہے مگر پاکستان کے محنت کش تاحال مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مزدوروں کو ملازمتوں کا تحفظ و صحت کی بنیادی سہولیات جو سرے سے موجود نہیں ،سماجی تحفظ ،یونین سازی ،اجتماعی سودا کاری کے حقوق کی پامالی ،ٹھیکے داری سسٹم جیسے مسائل نے مزدوروں کی زندگی دوبھر کرکے رکھ دی ہے ۔جس سے سرمایہ دارو ں کی آمدنی میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے ۔یورپی یونین نے پاکستان کو تجارت کی ترجیحی سہولتیں فراہم کرتے وقت برآمدی اشیأ پر چھوٹ دراصل موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی غرض سے دی تاکہ بین الاقوامی معاہدوں و عالمی مزدور قوانین کے تحت انسانی حقوق جن میں مزدور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی صورتحال کو بھی بہتر بنانے کی شرط تھی جس میں یورپی یونین نے آئی ایل او کنونشنز کی نگرانی بذات خود کرنا تھی تاکہ اس پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جاسکے اس ضمن میں پاکستان کو خاصا نقصان ہونے کا بھی اندیشہ ہے اس کے باوجود حکومت اور سرمایہ کار یورپی یونین کی شرط سے غافل دکھائی دیتے ہیں لیکن پاکستان ریاست کو اس معاملے میں پابند کرتا ہے کہ وہ معاشرے کے ان تمام بالغ افراد کو روزگار دے کیونکہ پاکستان انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں میں ناصرف شریک ہے بلکہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن بنیادی اور دیگر کنوینشنز کی توثیق بھی کر چکی ہے لیکن قومی سطح پر قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ صرف بین الاقوامی کنوینشنز بلکہ ملک کے مزدور ضابطوں پر عمل خاصا کمزور دےکھائی دیتا ہے۔ سال 2010میں جب اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت شعبوں کو صوبوں کے اختیار میں دیے جانے کے بعد ملک کے تمام صوبوں نے اپنے طور پر انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ وضع کیا جس کے نتیجے میں کہیں ایک مقامات پر مزدور کو فائدہ ہوا اور کہیں بہت زیادہ نقصان بھی ہوا ہے کیونکہ قومی سطح پر مزدوروں سے متعلق قانونی فریم ورک یعنی فیڈرل لیبر قوانین موجود نہ ہونے کی وجہ سے صوبوں کو اپنی من مانی کا اختیار مل گیا ہے ۔


 وفاقی حکومت کی سطح پر قانونی فریم ورک تیار ہونے چاہئے جس میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے معیارات اور صوبوں کی حدود بھی متعین کی جائے تاکہ صوبے تسلیم شدہ معیارات سے ہٹ کر قانون نہ بنا سکیں البتہ پاکستان کے مزدور گزشتہ67برسوں سے نافذ کی جانے والی چھ پالیسیوں کی قانون سازی سے محروم رہے ہیں اور یہ چھ پالیسیاں کبھی بھی مزدور دوست قوانین کا روپ نہیں دھار سکیں۔سال 2001,1972,1969,1959,اور2010میں نافذکی جانے والی لیبر پالیسی میں ستم یہ کہ محنت کشوں کا یونین سازی کا حق بھی تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔اٹھارویں ترمیم کے چار برس بعد پنجاب نے تینوں فریقوں کی مشاورت کے بغیر لیبر پالیسی 2014 ڈرافٹ تیار کی اگر وفاقی سطح پر فریم ورک ہوتا تو مزدوروں کے حقوق پر کوئی ضرب نہ پڑتی بلکہ صوبوں کو اپنے خطے کے مخصوص حالات اور معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی لیبر پالیسی وضع کرنے میں بھی آسانی ہوتی کیونکہ محنت کے ہر شعبے میں کارکنوں کےلئے محفوظ ماحول اور سلامتی کے اقدامات کا نہ ہونا ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان لیبر حقوق پر عمل درآمد کے حوالے سے پچھلی چھ دہائیوں میں کبھی بہتر حیثیت میں نہیں رہا ہے پاکستان میں غیر رسمی معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس مناسبت سے جی ڈی پی میں اس کی شرح تقریبا %73.8تک جا پہنچی ہے ٹیکسٹائل کو پاکستان کی بر آمدی آمدنی حاصل کرنے والا شعبہ خیال کیا جاتا ہے حد تو یہ کہ ٹیکسٹائل کے شعبے نے 2012-13کے مالی سال میں 18ارب امریکی ڈالر کی برآمدات کیں لیکن اس کے باوجود صنعتیں مزدوروں کو اےک آبرومندانہ اور کم سے کم اجرتیں دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔پاکستان کی کل شہری افرادی قوت کا تقریباً %40ٹیکسٹائل انڈسٹری کے شعبے سے وابستہ ہیں جن میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے ۔پاکستان نے سال 2012-2013میں 1.3ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں لیکن صنعت سے وابستہ مزدوروں کا پھر بھی کوئی پرسان حال نہیں اسی لئے شہر لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ مقامی لیبر قوانین کے دائرے سے خارج ہوتا جارہا ہے کیونکہ متعدد مزدور کام کے دوران صنعتی حادثات میں زخمی یا پھر موت کا شکار ہوتے ہیں اس بات کا اندازہ 2012میں کراچی کی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں لگنے والی آگ اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں مزدوروں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔اس کے باوجود فیکٹریوں میں حادثات سے بچاؤ،انہیں روکنے یا مرنے اور زخمیوں کی دادرسی کا نظام تک موجود نہیں ہوتا ملک میں موجود قوانین کے تحت محنت کشوں سے متعلق حقوق انتہائی محدود ہیں ان کا اطلاق صرف مزدوروں کی قلیل تعداد پر ہوتا ہے جو منظم شعبے کی بڑی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں ۔بین الاقوامی سطح پر سماجی تحفظ ہر شہری کا بنیادی حق ہے جسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے اور پاکستان کے آئین کی دفعہ 38کے تحت ریاست یہ ذمہ داری سماجی تحفظ کے ادارے قائم کر کے پوری کرنے کی پابند ہے اس ضمن میں قوانین کے تحت کئی ادارے تو قائم ہیں لیکن ان کی کارکردگی محدود ہے اسی لئے ان اداروں کی سہولتوں کا فائدہ صرف %5محنت کشوں کی ہی ملتا ہے اس غیر منظم شعبے میں کام کرنے والے زرعی شعبے کے مزدوربلکہ بھٹہ ،دکانوں ،ٹرانسپورٹ کے مزدور ان سہولتوں سے محروم رہ جاتے ہیں سماجی تحفظ کی سکیموں کی اہمیت کا حکومت کو احساس نہیں اسی لئے وہ ہر سال اس مد میں رقوم کم کر رہی ہے جبکہ سماجی تحفظ کی سکیموں میں غیر منظم شعبے خصوصا زرعی شعبے اور ٹرانسپورٹ کے مزدوروں کو شامل کیا جائے جو ملک میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والے شعبے ہیں جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ سماجی تحفظ کے نظام کو بہتر بناتی بلکہ معیشت کے تمام شعبوں کوسماجی تحفظ کے دائرے میں لاتے ہوئے مزدوروں کو از خو د ان اداروں کو فعال بنانے کے لئے کرپشن سے پاک نظام قائم کرنے کے ساتھ ان کے فنڈز میں بھی خاطر خواہ اضافہ کرے ۔زراعت جو کہ ملک میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے زرعی مزدور لیبر قوانین اور اس کی اہمیت سے ناواقف ہے زرعی مزدور کو اس مناسبت سے صحیح آگاہی میسر نہیں جو اس کا حق ہے جبکہ عوامی سطح پر اس بات کا بار بار اسرار کیا گیا کہ زرعی شعبے سے وابستہ ان تمام مزدوروں کو بھی لیبر قوانین کے تحت حقوق فراہم ہو جو انہیں ملنے چاہئے تھے لیکن سازگار اداروں میں جاگیرداروں کی اکثریت کی وجہ سے زرعی شعبے سے وابستہ مزدوروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے ۔جی ایس پی پلس سکیم کی سہولت کے بعد نا صرف یورپی یونین بلکہ بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی پاکستان سے کپاس برآمد کرنے والوں پر یہ شرط عائد کررکھی ہے کہ وہ کھیت کے مزدوروں کو ان کا جائز حق اداکریں گے اس مد میں حکومت سندھ نے سال 2013میں زراعت کے شعبے کے تمام مزدوروں اور کسانوں کو یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کا حق دیا اب وفاقی حکومت بھی کھیت کے مزدوروں کو صنعتی مزدوروں کے برابر حقوق دینے کے لئے اقدامات بروئے کار لائے اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے لیبر انسپیکشن کنوینشن 129نمبر کی توثیق بھی کرے ۔ پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کنوینشن 100برائے مساوی اجرت اور کنوینشن 111ملازمت اور روزگار میں تفریق کے خاتمے کی توثیق بھی کرچکا ہے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد ان کنوینشنز پر عمل کروانا اب پاکستان کی ذمہ داری ہے کیونکہ پاکستان میں خواتین مزدوروں کی شرح چونکہ کم ہے پھر بھی انہیں اجرت مردوں کے مقابلے میں کم ملتی ہے جبکہ پاکستان کا آئین ہر سطح پر مردوں اور خواتین کو مساوی حقوق کے فراہمی کی ضمانت دیتا ہے پاکستان اس ضمن میں عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے کنوینشن CEDAWپر بھی دستخط کر چکا ہے ۔لہذا جی ایس پی پلس سکیم میں شامل ملکوں کے برآمد کنند گان کو اپنی استعداد میں اضافے کی ضرورت ہے تاکہ پیداواری حجم کو بڑھاےا جائے جس کے لئے خام مال اور انسانی وسائل کے علاوہ انہیں بنیادی ضروریات یعنی بجلی اور گیس کی مسلسل فراہمی کی بھی ضرورت ہے۔ پیداوار کے لئے درکار یہ عوامل برآمدی صنعت کو دستیاب نہیں ہیں البتہ جی ایس پی پلس سکیم پاکستان کی سکڑتی ہوئی معیشت کے پیش نظر دی گئی تاکہ پاکستان میں مزید روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہیں کیونکہ جی ایس پی پلس سکیم ملکوں کو 27بین الاقوامی کنونشنز پر عمل درآمد کا پابند کرتی ہے اس درآمدی سکیم میں اب پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تجارتی اور سرمایہ کاری کے معاہدے کے لئے جلد مذاکرات شروع کرنے جارہا ہے ۔کیونکہ حکومت برآمدات کے ذریعے معیشت کو مضبوط بنانے کے عمل میں سنجیدہ دیکھائی دے رہی ہے لیکن ہنر مند مزدورں کی یوٹیلیٹیز کی بلا تعطل فراہمی اور شہر میں امن امان کی خراب صورتحال کے باعث سنگین قلت ہے اس کے باوجود صوبائی حکومتیں لیبر ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہی ہیں ۔صوبوں کے لیبر محکموں کو اور زیادہ سرگرمی باالخصوص فیکٹریوں میں بنیادی لیبر حقوق پر عمل درآمد کے حوالے سے سخت نگرانی اور کام کی جگہوں پر صحت و تحفظ کے انتظامات کا جائزہ لینے کے عمل کو بھی شروع کر رکھا ہے ۔حکومت پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے 36کنونشنز بشمول آٹھ بنیادی کنونشنز کی بھی توثیق کر چکی ہے جس کے تحت ریاست پر ذمہ داری ہے کہ وہ لیبر قوانین کا نفاذ کرے اور ضروری ادارہ جاتی نظام تشکیل دے تاکہ نگرانی کے موثر طریقہ کا ر کے ذریعے ان حقوق پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے 18ویں آئینی ترمیم اور اختیارات کے عدم ارتکاز کے بعد صوبائی لیبر محکموں کے لئے لازمی ہے کہ وہ مقامی لیبر قوانین کو فوری طور پرصوبائی شکل دیں اور قوانین کے اطلاق کے متعلق تقاضوں کو بھی پورا کیا جائے کیونکہ صوبائی محکمہ ٹیکنیکل صلاحیتوں کے فقدان اور محکموں کے اندر وسائل کی کمیابی کے باعث ان میں سے ابھی تک کوئی بھی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے ۔اسی لئے سندھ حکومت نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تعاون سے ایک سہ فریقی مشاورتی عمل کے بعد کام کی جگہ پر تحفظ کے لئے مشترکہ ایکشن پلان تیار کیا ہے جو جوائنٹ ایکشن پلان پاکستان باالخصوص صوبہ سندھ میں کام کی جگہوں پر بین الاقوامی لیبرمعیارات پرعمل درآمد کے لئے رہنما اصول کے طور پر کردار ادا کرے گا ےہ جوائنٹ ایکشن پلان تین اہم موضوعات کا احاطہ کرے گا یعنی کام کی جگہ پر پیشہ ور رانہ تحفظ اور صحت ،لیبر انسپیکشن کا نظام ،مزدوروں کا سماجی تحفظ ،جہاں تک جی ایس پی پلس سے متعلق کنوینشنز پر عملدرآمد کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے سرکاری محکموں پر حکومت پاکستان کی جانب سے کئے گئے وعدوں پر بین الاقوامی معاہدوں کے ضمن میں عمل درآمد کر نے کی زمہ داری عائد ہوتی ہے جی ایس پی پلس پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے اس مقصد کےلئے حکومت سندھ نے ان 15وفاقی لیبر قوانین کو صوبائی شکل دینے کے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے جو صوبے میں جی ایس پی پلس کے کنوینشنز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ضمن میں بہت ضروری ہیں اس میں موجودہ لیبر قوانین مین ترامیم کرنے کا عمل بھی شامل ہے تاکہ انہیں بین الاقوامی لیبر معیارات سے ہم آہنگ کیا جاسکے ۔



سندھ کا محکمہ محنت مذکورہ بالا مسائل اور چیلینجز پر قابو پانے کے لئے مزدوروں اور سول سوسائٹی و مزدوروں کی تنظیموں کی خصوصی معاونت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اسٹاف کی تربیت ،لیبر قوانین اور کام کی جگہ پر تحفظاتی اقدامات کی جانکاری کے کام میں سہولت حاصل ہوسکے ۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی لیبر محکموں میں ترقیاتی فنڈکی رواں منتقلی نہ ہونے کے باعث ان اداروں میں ٹیکنیکل سٹاف سپورٹ کی عدم دستیابی بھی ہے کیونکہ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اندر آئی ٹی کی سہولیات کےلئے فنڈز کی کمیائی پائی جاتی ہے جبکہ سرکاری محکموں میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کو سب سے کم زور محکمہ تصور کیا جاتا ہے اسی لئے حکومت بھی اسے بہت کم فنڈز مہیا کرتی ہے ۔جی ایس پی پلس سکیم کے تحت 27کنوینشنز باالخصوص انسانی لیبر حقوق سے متعلق 16کنونشنز پاکستان کے اندر لیبر حقوق کے مجموعی حیثیت پر اپنا مثبت اثر ڈال سکتے ہیں جی ایس پی پلس سکیم کو اگر تعمیر و ترقی کے ایک موقع کے طور پر اختیار کیا جائے تو یہ پاکستان کے لئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے جس کی افا دیت محض براہ راست مالی فوائد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس پردیانت داری سے عمل اور نگرانی کر لی گئی تو یہ سکیم پاکستان میں مزدوروں کے حقوق اور مالیاتی و انسانی حقوق کی حیثیت کو بھی بہتر بنانے کے ضمن میں موثر کردار ادا کرے گی ۔مزید براں جی ایس پی پلس سے متعلق کنوینشنز پر عمل درآمد کے ضمن میں جن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے ان مشکلات سے بخوبی نمٹنے کے لئے حکومت اور سرمایہ کاری کرنے والی تنظیموں کو چاہیئے کہ جی ایس پی پلس کنوینشنز باالخصوص جن کا تعلق ماحولیات سے ہے ان پر سختی سے عمل درآمد کروائیں اور خود بھی کریں ،حکومت لیبر ڈیپارٹمنٹ میں ان فیکٹریوں کے اندراج کو یقینی بنائے جو شہر کے صنعتی ایریامیں کام کررہی ہیں اور مزدور تنظیمیں تمام صنعتی یونٹوں میں مقامی لیبر قوانین پر عمل درآمد بنانے کے ضمن میں اپنا رضاکارانہ کردار ادا کریں حکومت تاجروں کو سہولیات کے ساتھ تحفظ بھی فراہم کرے ،حکومت بنیادی لیبر حقوق اور مقامی لیبر حقوق پر باقاعدہ عملدرآمد کے لئے کمیٹی تشکیل دے اور تجارتی تنظیمیں لیبر حقوق اور بین الاقوامی کنوینشنز پر عمل درآمد سے متعلق آگاہی ورکشاپس کا انعقاد اور ملکی میڈیا مزدوروں کے مسائل کو وقتا فوقتا اجاگر کرے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کس حد تک جی ایس پی پلس سکیم پر پاکستان میں عمل کروایا جا رہا ہے ۔